Muhammad Nasir Khan میر نصیر خان نوری

غازی میر نصیر خان نوری

غازی میر نصیر خان نوری کا شمار قلات بلوچستان کے ممتاز ہردلعزیز ترین برو ہی سرداروں میں ہوتا  ہے، وہ میر عبداللہ خان برو ہی کے تیسرے چھوٹے بیٹے تھے، ان کی ماں بی بی مریم التازئی قبیلے سے تعلق رکھتی تھی،
نادر شاہ کے وفات کے بعد میر نصیر خان، احمد شاہ ابدالی کے ساتھ قندھار چلا گئے ، جب افغانستان کے بادشاہ کے لیے احمد شاہ کا انتخاب ہوا تو میر نصیر خان نے اپنے خاندان کی نما یند گی کی، انہوں نے احمد شاہ کے حق میں رائے دیکر بالادستی قبول کرلی، کچھ دن بعد نصیر خان کے بھائی محبت خان نے لقمان خان کی بغاوت میں حصہ لے کر احمد شاہ کا اعتماد کھو دیا
،1749ء میں احمد شاہ کے حکم سے میر نصیر خان اپنے بھائی کی جگہ قلات کے ناظم بنے انکا دور حکومت 1751ء سے 1794ء تک رہا،خوانین قلات افغان حکمرانوں کو سالانہ دو لاکھ روپیہ اور فوجی سپاہی بھی مہیا کرنے کے پابند تھے، نصیر خان کا شمار احمد شاہ کے منظور نظر سپہ سالاروں میں ہونے لگا، اور اسنے بادشاہ کے ساتھ کئ معرکوں میں حصّہ لیا، ان دنوں میر نصیر خان اؤل قندھار میں تھے احمد شاہ نے انھیں قلات کا خان مقرر کیا ، اور مالیہ وصولی وغیرہ کا کام سونپ دیا، جب کشمیر میں بغاوت ہوئی
نصیر خان کو تاریخ میں نصیر خان اول عظیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ بڑی ہی صلاحیتوں کے مالک تھے وہ ایک عظیم سپہ سالار، منتظم، اور ماہر آئین و قانون تھے  ان کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ وہ جس قدر صلاحیتوں کے مالک تھے اس کے لیئے ریاست قلات بہت ہی چھوٹی ریاست تھی کاش وہ اس دور میں  اپنی دور افتادہ ریاست قلات کے بجائے دہلی یا مرکزی ہند کی کسی ریاست کے حکمران ہوتے یا ان کا براہ راست تعلق  دہلی کے دربار سے ہوتا تو یقینا آج ہندو و ]پاکستان کی تاریخ بہت ہ مختلف ہوتی مگر یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ اس لفظ کاش کی بنیاد پر مرتب نہیں ہوئی اور نہ ہی کی جاتی ہے
نصیر خان نوری کا بنایا ہوا آئین آج بھی کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں رائیج ہے بعض قبائل مِں یا قانون کی بعض شقوں کی صورت میں ہمیں کہیں نہ کہیں مل جائے گانصیر خان اول عظیم  نے ریاست قلات پر 44 سال حکمرانی کی انہوں نے ریاست قلات مِں ایک نیا آئین نافذ کیا  سرداروں کا نظام بنایا قبیلوں کی ترتیب بنائی  سرداروں کی رہنمائی کے لیئے علماء مقرر کیئے اور شریعت کانفاز کیا   
 
نصیر خان اول عظیم  کے دور کے بنائے  چند قوانین
سود کا لین دین اور کاروبار یکسر ختم کیا جاتا ہے  
 الزام تراشی ، غیبت کی سزا اسی درے مقرر کی جاتی ہے
بچوں اور عورتوں پر دست درازی کرنے والااسی دروں کی سزا کا مستوحب ہے  

غلاموں کی تجارت شریعت کی عائد کردہ پابندیوں کی حدود میں رہ کر کی جائے
گی
تمام نشہ آور اشیا کا استعمال اور ان کا کاروبار ممنوع قرار دیا جاتا ہے
شادی بیاہ کی تقریبات کے موقعوں پر گانے بجانے کی ممانعت ہے مرد و عورت کسی تقریب پر بھی نہیں ناچیں گے
خانقاہوں اور مزاروں پر نذرانہ دینا یا اجتماعات منعقد کرنا شرک ہے ان تقریبات کی یکسر ممانعت ہے
پیری مریدی کا کوئی جواز نہِیں ہے اس  قسم کا کاروبار بند کیا جاتا ہے
جمعے کی نماز کے لیئے شہر کی مسجد میں ہر ایک فرد کا حاضر ہونا ضروری ہے پنج وقت نماز محلے کی مسجد میں ادا کی جائے گی  اور علاقے کا امام یقین کرے گا کہ علاقے کے لوگ وقت مقرر پر نماز کے لیئے حاضر ہوتے ہیں
ڈھائی فیصد زکوۃ یا خیرات کا بیت المال مین جمع کرانا فرض ہے اگر کوئی شخص کوئی اور مالیہ ادا نہِن  کرتا ہے تو وہ قابل کاشت زمین پر عشر یعنی ایک بٹہ دس حصہ ادا کرے گا
ہر ایک قبیلے کے لیئے اور شہروں میں ہر محلے کی مساجد کے لیئے مولوی صاحبان  تعینات کیئے جائیں گے جو مذپہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کریں گے اور یقین کریں گے کہ ہر ایک شخص پنج وقت نماز ادا کرتا ہے
موت اور غمی کے موقع پر ماتم ، بین کرنااور سرکوبی کی یکسر ممانعت ہے
کسی بھی مسلم کا مندر میں نوکری کرنا خلاف قانون ہے ہندو لوگوں کے لیئے لازم ہے کہ وہ تلک لگائیں 

 اس کے علاوہ بہت سے قوانین جاری کیئے گئے جو جگہ کی کمی کے باعث  اس وقت نہیں دیئے جارہے ہیں

احمد شاہ ابدالی کے خلاف بغاوت


غازی  نصیر خان خان  نوری آف قلات       دور حکومت
1749
 ء سے 1794ء تک
 کو جب خان قلات میر نصیر خان نے آزادی کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے فورا" ایک فوجی دستہ روانہ کیا، میر نصیر خان کو جب پتہ چلا تو مقابلے کے لیے نکلے مستونگ کے مقام پر جنگ ہوئی، اس دوران احمد شاہ خود قندھار سے مدد کو پہنچا اور قلات کا محاصرہ کیا، کچھ عرصے بعد دونوں کے مابین مشروط راضی نامہ ہوا جس کی رو سے خان قلات احمد شاہ فوجی معرکوں میں مدد کرینگے اور احمد شاہ نے بھی خان کو کچھ مراعات دیں،اور اس صلح کو مضبوط کرنے کے لیے احمد شاہ نے نصیر خان کی چچازاد بہن سے اپنے بیٹے تیمور شاہ کا نکاح کرد یا،
احمد شاہ درانی کا دورہ حکومت ( 1747ء سے 1823ء)
تک افغانستان پر رہا۔
1765
 ء کا زمانہ آیا سکھوں نے پنجاب میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا تھا ۔خان آف قلات میر نصیر خان بھی احمد شاہ ابدالی کے ہمرا سکھوں کی سرکوبی کے لیے پنجاب کی طرف روانہ ہو گے۔ میر نصیر خان بارہ ہزار کا لشکر لے کر براستہ گندا وہ احمد شاہ کی مدد کو پنجاب روانہ ہوا، ڈیرہ غازی خان سے سردار غازی خان بھی ایک بلوچ لشکر لے کر میر نصیر خان کی فوج میں شامل ہوا، دریا ے چناب پار کر کے میر نصیر خان کی فوج احمد شاہ کے فوج کے ساتھ شا مل ہوا، اور پھر یہاں سے روانہ ہوکر یہ فوج لاھور میں داخل ہوا، میر نصیر خان نے احمد شاہ کے حکم پر آگے بڑھ کر سکھوں کا مقابلہ کیا، شدید لڑائی شروع ہوئی، میر نصیر خان نے بڑھ بڑھ کر سکھوں پر حملے کیۓ، لڑا ئی میں اس قدر بے خود ہوا کہ سکھوں کے لشکر کے بیچ جا پہنچا سکھوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور قتل کرنا چاہتے تھے اسی دوران ہاتھا پائی میں انکی پگڑی سر سے گر گئ سکھوں نے جب انکے لمبے بلوچی بال دیکھے تو ایک سکھ نے آواز لگائی کہ مت مارنا اپنا ہی بھائی ہے، کیو نکہ دھاڑی اور لمبے بالوں کی وجہ سے بلوچ بھی سکھوں کی طرح لگتے تھے، اس معر کہ سے واپسی پر میر نصیر خان نے یہ کہہ کر اپنے بال منڈوا دیے کہ انکی وجہ سے میں شہادت سے محروم ہوا،

نوٹ احمد شاہ درانی کے بارے میں مزید معلومات  اسی بلاگر کے دوسرے صفحے پر ملاحظہ  کرلیجیے۔۔۔۔۔  جاری ہے