Mir Chakar Khan Rind or Meer Chaakar Khan Rind or Chakar-i-Azamمیر چاکر آعظم رند

میر چاکر رند یا چاکر آعظم
پندرھویں صدی میں بلوچوں کی ایران سے پاکستانی علاقوں میں ہجرت
کے رہنما

میر چاکر رند یا چاکر اعظم صرف ایک نام یا ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ و تمدن، معیشت و معاشرت، اخلاق و عادات، بہادری و جوانمردی، جوش و جذبہ، گفتار و کردار، ایثار م قربانی، ایفاۓ عہد اور انتقام کا نام ھے۔
سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش
مشہور بلوچ مورخ تاریخ دان اور قانون دان جسٹس میر خدا بخش مری اپنی کتاب مِں میر چاکر بلوچستان تاریخ کے آئینے کے صفحہ نمبر277 پر لکھتے ہیں کہ تاریخی کتب اس بات کو ثابت کرتی ہِیں کہ میر چاکر1540 میں زندہ تھا اور ملتان کے قریب ست گڑھ کا حکمران تھا کہا جاتا ہے کہ اس نے 88 برس کی عمر میں وفات پائی بہر حال اس کی صیح تاریخ وفات کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے اس کی تاریخ پیدایش کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر وہ 1556 میں جب کہ اس نے ہمایوں کی دہلی کو دوبارہ فتح کرنے میں مدد کی تھی 88 سال کا تھا تووہ تقریبا 1468 میں پیدا ہوا ہوگا
سردار چاکر خان رند کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کی  دیگرمختلف روایات 
  سب سے زیادہ معتبر روایت 1486م  کی ہے جب قلات کو 1486میں  فتح کیا اور میر واڑیوں سرداروں  سے بروہی سرداروں نے لیا تو اس وقت سردار چاکر کا عمر صرف 16 سال تھی اور سال 1488م میں سبی پر قبضہ کیا
 اور اسی سال میر شہک وفات پا گۓ اور رند اور لاشار کی تیس سالہ جنگ کا آغاز سال 1489م میں شروع ھوا جو کہ 1519م میں اختتام پذیر ھوا1520
 م میں میر چاکر ملتان کی روانہ ھوۓ اور 1523م میں مستقل طور پر ست گھڑہ میں قیام کیا اور 1555م میں ہمایوں کے ساتھ دھلی پر حملہ آور ھوۓ اور شیر شاہ  کے پوتے سلیم سوری کو شکست دے کر دھلی فتح کیا اور 1565م میں یہ عظیم قائد اس دنیاے فانی کو چھوڑکر خالق حقیقی سے جا ملے اور بمقام ست گھڑ میں دفن ھوۓ
میر چاکر کے بارے میں مورخ لکھتے ہیں  سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ھے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں" میر چاکر خان مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہوگیا تھا قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھاۓ کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گۓ۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا اور رندوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا لیکن اس دور کا اختتام اتنا تاریک اور عبرت انگیز ھے کہ میر چاکر کے آخری دور میں نہ صرف رند بلکہ پوری بلوچ قوم اس طرح منتشر ھوئی کہ آج تک دوبارہ اکھٹی نہ ھو سکی میر چاکر کا دور بلوچوں کا عروج اور خوشحالی کا دور تھا اور آج بھی بلوچ قوم کا اجتماعی طور پر ہیرو میر چاکر رند ھے اور آج بھی میر چاکر کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں بقول میر چاکر "مرد کا قول اسکے سر کے ساتھ بندھا ھے
بلوچوں کی تیس سالہ خانہ جنگی"
 اور میرچاکر اپنے قول کا دھنی تھا اپنے قول کے مطابق ایک مالدار عورت "گوھر" کو امان دی اور اس کی حفاظت کف لۓ جان کی بازی لگا دی اور اپنے ہی بھائیوں لاشاریوں سے جنگ کی جو تیس سالہ کشت و خون میں بدل گئی اور یہی جنگ کئی نامور رند اور لاشاریوں کو خاک و خون میں نہلا گئی جن میں میر چاکر کے دو نوجوان بھائیوں کے علاوہ میرھان، ھمل، جاڑو، چناور، ھلیر، سپر،جیند، بیبگر، پیرو شاہ اور دیگر سینکڑوں بہادر بلوچ شامل تھے بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ھے خص کر اگر وہ رند بلوچ ھو بقول چاکر خان رند کے"سچ بولنا بلوچوں کا شیوہ ھے اور جھوٹ ایمان کی کمزوری کی نشانی ھے" بلوچ معاشرے میں جو کوئی جھوٹ بولے اور وعدہ خلافی کرے تو انکے معاشرے میں کوئی مقام و عزت نہیں ہوتی اور ان کی نظر میں وہ شخص زندہ نہیں بلکہ مردہ ھے اور رندوں کی ایک کہاوت ھے کہ"مرے ہوۓرند کو کوئی راستہ نہیں ملتا دونوں طرف سے انکی زندگی اسیر ھے"
 بلوچ لوگ بخصوص رند بلوچ لوگ عورتوں اور بچوں پر کھبی ہاتھ نہیں اٹھاتے، مہمان اور مہمان نوازی بلوچ معاشرے کا ایک لازمی حصہ ھے
 اور مہمانوں کو خدا کا نعمت سمجھتے ہیں