Kharan
ریاست خاران
![]() |
برطانوی دور میں بلوچستان کی حدود کے اندر ریاست خاران کی حدود |
م
خاران کی ریاست مکران سے ملحق اور اس کے بعض علاقوں پر قائم تھی
اس کا قیام شیروانی خاندان کے سرداروں کے باعث ہوا ریاست خاران کا اقتدار نوشیروانی قبیلے کے تسلط میں رہا جو اپنے آپ کو ایرانی بادشاہ نوشیروان کی اولاد میں سے بتاتا ہے
![]() |
ریاست خاران کا جھنڈہ جو قیام پاکستان کے وقت تک خاران کے مختلف علاقوں میں لہراتا رہا |
ء1734میں ایران کے نادر شاہ افشار اور ریاست خاران کے حمکران امیر پردل خان کا تنازعہ بڑھ کر خونریز جنگوں مین تبدیل ہو گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد مں ایرانی اورخاران کے باشندے ہلاک ہوئے مگر اس جنگ میں نادر شاہ افشار کو کامیابی اور خاران کے حکمران امیر پردل کو شکست کے بعد دونوں حکمرانوں میں صلح ہوئی صلح کے معاہدے کے میں نادر شاہ افشار نے خاران کے حکمران امیر پردل کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے جو سند جاری کی اس کے مطابق امیر پردل کو خاران کے مندرجہ زیل علاقوں کا حکمران تسلیم کیا گیا جو درج زیل ہیں خاران کے نوشیروانی حکمرانوں نے کبھی بھی قلات کے (براہوئی) احمد زئی حکمرانوں کی بالادستی کو قبول نہیں کیا ہمیشہ قلات کے حکمرانوں کو اپنا برابر تصور کیا اگر چہ کے دونوں شاہی خاندانوں کے درمیاں رشتے داریاں بھی قائم ہوئی مگر اس کے باوجود دونوں ریاستوں کے درمیاں متعدد بار جنگ و جدل بھی برپا ہوئی ہمیشہ
ہی قلات اور خاران کے حکمرانوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی ۔
رخشانی،ریکی، سربازی، جدگال، کیچ و تمب،بم پور ، کولواہ،قصر قند، گہنہ، صافل، جالک، وزک، اس کے علاوہ جالک ، وزک بمپور، سرحد مزار خان، اور رود بار میر کی بیابت یا آمدنی مکمل طور پر امیر پردل خان کو دے دی یہ سند آج بھی خاران کے نوشیر وان خاندان کے پاس موجود ہے
حوالہ کتاب۔
تاریخ خاران صفحہ نمبر 91 ۔مصنف عبدالقادر بلوچ خارانی
ریاست خاران کے حکمران
امیر پردل خان 1730 سے 1745 تک
امیر شہداد خان نوشیروانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ امیر پردل کے بڑے صاحبزادے تھے ان کا اقتدار خاران کی ریاست کے ایرانی حصوں پر قائم تھا جو اس وقت ایران کا حصہ ہیں
میرشاہو نوشیروانی یہ امیر پردل کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور امیر پردل کی نادر شاہ افشار کے پاس قید کے دوران خاران کے پاکستانی حصوں کے حکمران رہے تھے قید کے دوران امیر پردل نے میر شاہو کو ہی اپنا جانشین نامزد کیا تھا جاری ہے
Date of Reign | Rulers of Kharan |
1810-? | Abbas Khan |
1833–1885 | Azad Khan |
1885–1909 | Nowruz Khan |
1909–1911 | Mohammad Yaqub Khan |
1911–1955 | Nawab Habibullah Khan Nousherwani |
State merged into West Pakistan خاران کے اہم ترین قبائل میں نوشیروانی قبیلے کا شمار کیا جاتا ہے ،( بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر داخلہ میر شعیب نوشیروانی کا تعلق نوشیروانی قبیلے ہی سے ہے ) ہیں |
دونوں ریاستوں کے درمیان 1939 میں اس وقت آخری باقائدہ جنگ ہوئی جب قلات کے احمد زئی حکمرانوں نے خاران پر فوج کشی کی جو انگریز کمشنروں کی وجہ سے جلد ہی اختتام پذیر ہوئی ۔
خاران کی علیحدہ اور آزاد حیثیت
اور ریاست قلات
خاران کی علیحدہ اور آزاد حیثیت
اور ریاست قلات
خاران کو گر چہ قلات کے حکران اپنی زیلی ریاست کے طور پربیان کرتے تھے
جو( جو مشہور بلوچ تاریخ دان عبدالقادر خارانی کے مطابق محض خیالات پر مبنی تھے) مگر ان کی اس بالا دستی کو کبھی بھی خاران کے نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے تسلیم نہیں کی۔
اس بارے میں ممتاز تاریخ دان اور محقق میر عبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 10 اورصفحہ نمبر 11 پر اس طرح سے لکھتے ہیں
میر گل خان نصیر کی کتاب تاریخ بلوچستان جلد اول اور دوئم کے علاوہ تاریخ خوانین بلوچ میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ خاران کو بلوچوں کو بھی ریاست قلات اور احمد ذئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ہے حالانکہ والیان خاران اور بلوچان خاران کبھی بھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانی اور امرا اکثر اوقات نوشیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لے چکے ہیں
اور اہل خاران نے ہر طرح سے ان کی مدد اور حفاظت کرکے بلوچی رواداری اور مہمان نوازی کی روایات کا پاس رکھا ہے
یہ بات سراسر ذاتیات اور حسد پر مبنی ہے کہ خاران کے امرا ریاست قلات کے مطیع اور محکوم رہے ہیں کیونکہ نوشیروانی خاندان رخشانی احمد ذئی خاندان کے برسراقتدار آنے سے کئی پشت پہلے اس خطہ میں ایک بلوچی آزاد و خود مختار ریاست کے حاکم تھے
ممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں کے تاریخ حقیقتا ایک سچی اور غیر متعصبانہ کتاب ہوتی ہے جس میں کسی قوم کے ماضی کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خاران سے کسی بھی مورخ نے انصاف نہیں کیا
جس نے بھی اس خطہ پر قلم اٹھایا تو اس نے کہیں نہ کہِں اس سرزمین کے ساتھ زیادتی کی ہے تاریخ خوانین بلوچ اور تاریخ بلوچستان ۔ میر گل خان نصیر نے اپنی کتاب میں خاران کو بلا ثبوت و اثبات ریاست قلات کا ایک حصہ قرار دینے کی سعی کی ہے حالانکہ ریاست قلات کی اصل تاریخ اور ریکارڈ میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ خاران اور خارانی بلوچ کبھی بھی قلات کے باجگزار یا رعیت رہے ہیں تاریخ خوانین جس کو قابل احترام میر احمد یار خان کے نام سے لکھی گئی ہے لیکن اصل لکھنے والے نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے خاران کو بے جا طور پر قلات کا ایک جزو قرار دیا ہے یا پھر خان صاحب نے از خود دور حاضر کے تقاضوں کے تحت بلوچ اتحاد کے پیش نظر اس امر کو دہرایا ہےممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں اسی طرح میر گل خان نصیر نے بھی اسی طرح بے جا تصور پیش کیا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے احمد ذئی خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری اور نمک حلالی کا ثبوت دیا ہے جب کہ احمد ذئی خاندان نے ان کے قبیلے زگر مینگل پر بے شمار مہربانیاں کی ہیں اور زگر مینگل ہی واحد قبیلہ ہے جو قلات کے عتاب کا شکار نہیں ہوا ہے ورنہ احمد ذئی خاندان سے بہادر ترین سرداران سراوان و جھالاوان نہ بچ سکے ہیں
میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھا ہے کے
خاندان نوشیروانی امیر عباس خان اول غالبا 1425 عیسوی میں اپنے خاندان کے چند افراد کے علاوہ کافی رخشانی بلوچوں کے ہمراہ ایرانی بلوچستان سے بوجہ تکرار و تنازعات خاران آکر قلعہ جہلوار جو ساسانی کاندان کا بنا ہوا تھا جو اس دور میں کھنڈرات تھا بنا کر قیام پذیر ہوئے اور اپنی بلوچی حکومت قائم کی
اس
جو( جو مشہور بلوچ تاریخ دان عبدالقادر خارانی کے مطابق محض خیالات پر مبنی تھے) مگر ان کی اس بالا دستی کو کبھی بھی خاران کے نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے تسلیم نہیں کی۔
اس بارے میں ممتاز تاریخ دان اور محقق میر عبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 10 اورصفحہ نمبر 11 پر اس طرح سے لکھتے ہیں
میر گل خان نصیر کی کتاب تاریخ بلوچستان جلد اول اور دوئم کے علاوہ تاریخ خوانین بلوچ میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ خاران کو بلوچوں کو بھی ریاست قلات اور احمد ذئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ہے حالانکہ والیان خاران اور بلوچان خاران کبھی بھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانی اور امرا اکثر اوقات نوشیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لے چکے ہیں
اور اہل خاران نے ہر طرح سے ان کی مدد اور حفاظت کرکے بلوچی رواداری اور مہمان نوازی کی روایات کا پاس رکھا ہے
یہ بات سراسر ذاتیات اور حسد پر مبنی ہے کہ خاران کے امرا ریاست قلات کے مطیع اور محکوم رہے ہیں کیونکہ نوشیروانی خاندان رخشانی احمد ذئی خاندان کے برسراقتدار آنے سے کئی پشت پہلے اس خطہ میں ایک بلوچی آزاد و خود مختار ریاست کے حاکم تھے
ممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں کے تاریخ حقیقتا ایک سچی اور غیر متعصبانہ کتاب ہوتی ہے جس میں کسی قوم کے ماضی کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خاران سے کسی بھی مورخ نے انصاف نہیں کیا
جس نے بھی اس خطہ پر قلم اٹھایا تو اس نے کہیں نہ کہِں اس سرزمین کے ساتھ زیادتی کی ہے تاریخ خوانین بلوچ اور تاریخ بلوچستان ۔ میر گل خان نصیر نے اپنی کتاب میں خاران کو بلا ثبوت و اثبات ریاست قلات کا ایک حصہ قرار دینے کی سعی کی ہے حالانکہ ریاست قلات کی اصل تاریخ اور ریکارڈ میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ خاران اور خارانی بلوچ کبھی بھی قلات کے باجگزار یا رعیت رہے ہیں تاریخ خوانین جس کو قابل احترام میر احمد یار خان کے نام سے لکھی گئی ہے لیکن اصل لکھنے والے نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے خاران کو بے جا طور پر قلات کا ایک جزو قرار دیا ہے یا پھر خان صاحب نے از خود دور حاضر کے تقاضوں کے تحت بلوچ اتحاد کے پیش نظر اس امر کو دہرایا ہےممتاز تاریخ دان اور محقق میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں اسی طرح میر گل خان نصیر نے بھی اسی طرح بے جا تصور پیش کیا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ انہوں نے احمد ذئی خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری اور نمک حلالی کا ثبوت دیا ہے جب کہ احمد ذئی خاندان نے ان کے قبیلے زگر مینگل پر بے شمار مہربانیاں کی ہیں اور زگر مینگل ہی واحد قبیلہ ہے جو قلات کے عتاب کا شکار نہیں ہوا ہے ورنہ احمد ذئی خاندان سے بہادر ترین سرداران سراوان و جھالاوان نہ بچ سکے ہیں
میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھا ہے کے
خاندان نوشیروانی امیر عباس خان اول غالبا 1425 عیسوی میں اپنے خاندان کے چند افراد کے علاوہ کافی رخشانی بلوچوں کے ہمراہ ایرانی بلوچستان سے بوجہ تکرار و تنازعات خاران آکر قلعہ جہلوار جو ساسانی کاندان کا بنا ہوا تھا جو اس دور میں کھنڈرات تھا بنا کر قیام پذیر ہوئے اور اپنی بلوچی حکومت قائم کی
اس
قیام پاکستان کے بعد لسبیلہ اور خاران کے حکمرانوں نے قلات سے قبل ہی پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا
خاران کے حکمران حبیب اللہ خان نے مئی 1947 کو خاران میں جلسہ کیا اس جلسہ میں خارا ن کے تمام عوام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا
یعنی ریاست قلات کی پاکستان شمولیت سے،
ریاست خاران کے قبائِل
یعنی ریاست قلات کی پاکستان شمولیت سے،
ریاست خاران کے قبائِل
ن01نوشیروانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔02۔۔رخشانی۔۔۔۔۔۔۔3۔کوہی سیاہ پاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔4۔ریکی۔۔۔۔۔۔۔5۔سہر۔۔۔۔6۔6پ۔۔6۔۔پیرزئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7۔۔مموجا۔۔۔۔۔۔8۔کچائی سیاہ پاد۔۔۔۔۔۔9۔امیراڑی۔10۔کبدانی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔11۔ہالازئی۔۔۔۔۔۔۔12۔مستی حان زئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔13۔طوقی۔۔۔۔۔۔14۔واشکی۔۔۔۔۔
۔۔15۔عیسیِ ذئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔16۔محمد حسنی۔ 17۔ قمبرانی ۔