Languages of Balochistan

انتظامی اعتبار سے صوبہ بلوچستان میں30 اضلاع ہیں ان  30  اضلاع میں منقسم بلوچستان میں مندرجہ زیل زبانیں بولی جارہی ہیں
  اردو
اردو جو قومی زبان ہے اس وقت بلوچستان میں رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اور بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں اردو ہی کے زریعے عوام و خواص آپس میں اوردیگر اقوام سے رابطہ قائم کررہے ہیں
بلوچستان میں اس وقت اردو ( جو تمام بلوچستان میں رابطہ کی مسلمہ زبان ہے) کے علاوہ بلوچی ، پشتو، براہوی،لاسی، کھیترانی، سرائکی،بولی جاتی ہیں یہ صورتحال اقوام کی بھی ہیں بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون سابقہ ریاست لسبیلہ کے لاسی ( جن کی زبان لاسی ہے) براہوئی ،کھیترانی ( ان کو اگر چہ بلوچ شمار کرانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ان کی زبان کھیترانی ہے جو بلوچی اور دیگر زبانوں سے بہت مختلف ہے بلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہے
بلوچی 
بلوچی یہ بلوچستا ن میں ضلع کوئیٹہ، ضلع سبی، ضلع بارکھان،
ضلع خضدار ضلع ڈیرہ بگٹی ، ضلع مکران،ضلع کوہلو،ضلع گوادر،ضلع کچھ، ضلع پنجگور ،ضلع جھل مگسی ، ضلع جعفرآباد، ضلع مستونگ ،ضلع  لسبیلہ و  مختلف قبائیل  جن میں بگٹی مری، جمالی، لغاری ، اور دیگر قبائیل کی زبان ہے ماہرین  لسانیات بلوچی زبان کے مختلف لہجے بیان کرتے ہیں جن میں دو بڑے لہجے ہیں ایک مشرقی بلوچی جو کے پاکستانی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بنولی جاتی ہے دوسرا مغربی لہجہ جو کہ ایرانی بلوچستان میں بولا جاتا ہے اور ایران ک فارسی زبان سے بہت زیادہ متاثر ہے
بلوچی کا مشرقی لہجہ
 پاکستان کے بلوچ قبائل میں  بولی جانے والی بلوچی زبان کو ماہرین لسانیات بلوچی  کا مشرقی لہجہ  کہتے ہیں  مگر  اس کے ساتھ ہی ساتھ ماہرین لسانیات بلوچستان  میں بولی جانےوالی مشرقی بلوچی کے بھی بہت سے زیلی لہجے بیان کرتے ہیں جو کے مختلف علاقوں میں مختلف لب و لہجے کے ساتھ بولی جاتی ہیں ۔
 مثلابگٹی اور مری  قبائل کی بلوچی دیگر قبائل میں بولی جانے والی بلوچی سے بالکل ہی مختلف لب و لہجے میں بولی جاتی ہے اسی طرح لغاری مزاری قبائیل کے اندر بولی جانے والی بلوچی زبان کے بھی مختلف لہجے ہیں جو سرائیکی اور پنجابی سے زیادہ قریب ہیں ۔ بلوچی کا ایک مختلف لہجہ مکران میں بولا جاتا ہے مگر مجموعی طور پربلوچستان میں بولی جانے والی بلوچی مشرقی بلوچی کہلاتی ہے جس کے گوادر۔ پنجگور۔خضدار۔تربت ۔کوئٹہ ڈیرہ بگٹی 
کو ہلو۔ کے لہجے الگ الگ ہیں
پشتو۔
بلوچستان میں بولی جانے والی پشتو صوبہ سرحد و افغانستان میں بولی جانے والی پشتو سے بہت مختلف ہے
یہ پشتون قبائل میں بولی جاتی ہے جن میں موسیٰ خیل، اچکزئی،مندوخیل، کاکڑ، پانڑی ،کانسی ،اور درانی قبائل کی مختلف شاخیں شامل ہیں یہ سبی ،کوئٹہ،چمن ، ژوب، لورالائی، چاغئی،موسیٰ خیل قلعہ سیف اللہ ۔ قلعہ عبداللہ۔ اور دیگر علاقوں میں بولی جاتی ہے پشتو بولنے والے ڈییرہ بگٹی اور کوہلو ضلع لسبیلہ  سمیت تمام صوبے میں پائے جاتے ہیں
براہوی 
 براہوی یا بروہوی زبان پاکستان کی اہم زبانوں میں شمار  کی جاتی ہے عام بلوچی براہوئی زبان کو کرگالی کہتے ہیں یہ زیادہ تر سابقہ ریاست قلات کے مرکز اور اس کے ارد گرد بولی جاتی ہے
براہوی زبان کے بارے میں ماہرین کی مختلف آرا ہیں لسانیات کے ماہرین  کا ایک گروہ کا کہنا ہے کہ براہوی زبان قدیم ہندوستانی اقوام دراوڑسے زیادہ متاثر ہے وہ اس حوالے سے براہوی زبان مین قدیم دراوڑی زبان کے الفاظ کی نشاندہی کرتےہیں برطانوی محقق ڈینی ڈی ایس ہنری نے اب سے تقریبا125 سال قبل براہوی زبان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جب کے براہوی زبان کے موجودہ ماہرین میں سے ڈاکٹر عبدالرحمان براہوئی نمایاں مقام رکھتے ہیں انہوں نے براہوی زبان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے
ریاست قلات کے سب سے مایہ ناز اور عظیم قاید میر نصیر خان نوری نے قلات کی ریاست کو چلانے کے لِیے  جو نظام بنایا تھا  اس کے تحت  ریاست قلات کو د حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا  ایک   سراوان کہلاتا تھا دوسرا جھالاوان ۔
جھلاوان کی اس وقت حدود وہی ہیں جو ضلع خضدار کی ہیں  جھالاوان کے اکثر قبائیل کی زبان براہوی ہے اور ان قبائیل میں زیادہ تر براہوی قبائیل ہیں
 اگر چہ کے سراوان قبائیل میں بھی براہوی زبان بولی جاتی ہے مگر زیادہ تر جھالاوان قبائیل کی زبان براہوی زبان ہے  مندرجہ زیل  قبائیل میں
 مینگل ، بزنجو،رئیسانی، لہڑی، شاہوانی،محمدشہی۔بنگلزئی۔میروانی،کرد،قلندرانی،گرگناڑی،زہری،ساجدی قبائل اور دیگر قبائل میں براہوئی زیادہ زریعہ گفتگو ہے ۔
کوئیٹہ،اور دیگر علاقوں میں دیگر زبانوں کے ساتھ براہوئی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ کراچی میں بھی لیاری اور بعض علاقوں میں براہوی زبان بولنے والے موجود ہیں
  بلوچستان کی سابق ریاست قلات کے  احمد زئی حکمران بھی اصل میں براہوئی تھے اس لیئے برصغیر میں انگریزوں کی حکومت کے قیام سے قبل ریاست قلات کے حکمرانوں کو براہوئی حکمران بھی کہا جاتا تھا  جیسا کہ حیدرآباد کے تالپور حکمران اپنی خط و کتابت میں  قلات کے حکمرانوں کے لیئے براہوئی حکمران کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں  اسی لئے اس علاقے میں براہوی زیادہ بولی جاتی ہے
 یہ بات واضح رہے کے خان آف قلات میر احمد یار خان جو براہوی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان کے بارے مِیں کہا جاتا  ہے کہ ان کے گھر میں مکرانی بلوچی زیادہ بولی جاتی تھی
دیہواری
دیہواری زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ  بگڑی ہوئی فارسی ہے  یا قدیم فارسی ہے جس میں بلوچی براہوی اور سندھی زبان کے الفاظ شامل ہو گئے ہیں  مستونگ اور قلات کےمختلف دیہوار قبائیل کے افراد دیہواری زبان بولتے ہیں 
سرائیکی

سرائیکی۔ بلوچستان میں سرائکی کا لہجہ بھی پنجاب سے مختلف ہے یہ زیادہ تر پنجاب اور سندھ کی سرحدوں میں بسنے والے علاقوں میں بولی جاتی ہے
لاسی
یہ بلوچی اور سندھی زبان سے متاثر ہے زیادہ تر سابقہ ریاست لسبیلہ کے علاقوں میں بولی جاتی ہے  سابقہ ریاست لسبیلہ کے وہ علاقے جو صوبہ سندھ کی سرحد کے قریب ہیں وہاں  بولی جانے والی لاسی زبان سندھی زبان سے  زیادہ متاثر ہے اور جو  علاقے اندرون بلوچستان سے ملتے ہیں وہاں بولی جانے والی لاسی زبان بلوچی اور براہوی زبان سے زیادہ متاثر ہے
جد گالی
جدگالی زبان دراصل سابقہ ریاست لسبیلہ کے کچھ قبائیل میں بولی جاتی ہے بعض ماہرین لسانیات اس کو لاسی زبان کا ہی حصہ شمار کرتے ہِیں بعض اس کو علیحدہ زبان شمار کرتے ہیں
جدگالی زبان بولنے والے قبائیل مِیں کرخ اور چاکو کے جاموٹ اور چھٹا  قبیلے شامل ہیں  
کھیترانی

یہ  پاکستان کی واحد زبان ہے جو صرف ایک ہی قبیلے کے افراد تک محدود ہے یعنی کھیترانی قبیلے کے افراد ہی اس زبان کو بولتے ہیں
یہ کھیترانی قبیلہ بلوچستان کے ضلع بارکھان اور اس کے گردو نواح میں آباد ہے  
 سندھی
یہ بلوچستان کے ان علاقوں میں زیادہ بولی جاتی ہے جو بلوچستان اور سندھ کی سرحدوں میں موجود ہیں
جیسا کہ جعفرآباد یا ارد گرد کے دیگر علاقے ہیں اسی طرح دیگر علاقے بھی ہیں مگر  بنیادی طور پر یہ صرف بلوچستان اور سندھ کے سرحد ی علاقے ہیں    
 
بلوچستان مِیں ادب  ایک  مختصر جائزہ
 
بلوچ قبائل کی زبان۔ ہند یورپی زبان کی ایک شاخ ’’ہند ایرانی‘‘ جو مروجہ فارسی سے قبل رائج تھی۔ کی ایک بولی کہلاتی ہے
بلوچی زبان اس وقت ۔ پاکستانی صوبہ بلوچستان ایرانی بلوچستان ، سیستان ، کردستان اور خلیج فارس کی ریاستوں میں بولی جاتی ہے۔
 بلوچی ادب کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا رند دور جو 1430ء سے 1600ء تک کے عرصے پر محیط ہے
۔ دوسرا خوانین کا دور جس کی مدت 1600ء سے 1850ء تک ہے۔
 تیسرا دور برطانوی دور جو 1850ء سے شروع ہوا اور اگست 1947ء میں تمام ہوا۔
 چوتھا ہمعصر دور جس کا آغاز قیام پاکستان سے ہوا۔
رند یا کلاسیکی دور میں بلوچ شعرا نے چار بیت طرز کی رزمیہ داستانیں اور مشہور بلوچ رومان نظم کیے۔ اُس دور کے شعرا میں سردار اعظم ، امیرچاکر رند، امیر بیو راغ ، پھوزرند ، گواہ شاہ لاشاری ، میر ریحان رند ، شاہ مرید ، میر شاد داد ، میر جمال رند اور شاہ مبارک قابل ذکر ہیں۔ خوانین قلات کے دور میں خان عبداللہ خان، جنید رند ، جام درک درمبکی ، محمد خان کشکوری ، مٹھا خان رند اور حیدر ہلاچانی شعرا نے شہرت پائی۔ برطانوی دور نے ملا فضل رند ،قاسم رند ، مست توکلی ، رحم علی، بہرام جکرانی ، حضور بخش جتوئی ، عبدالنبی رند، عزت پنج گرج ، نور محمد بام پشتی ، ملاابراہیم سرسبزی ، ملا بہرام سرسبزی اور اسماعیل پل آبادی جیسے شعرا اور ادبا پیداہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد بلوچی ادب کی ترقی و فروغ کے لیے موثر کوشیں کی گئیں۔ 1949ء میں بلوچستان رائٹر ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1951ء میں بلوچ دیوان کی تشکیل ہوئی اور بلوچی زبان کاایک ماہوار مجلہ ادمان کا اجرا ہوا۔ کچھ عرصے بعد ماہنامہ بلوجی جاری کیا گیا۔ اس کے فوری بعد ماہنامہ اولس اور ہفت روزہ ’’دیر‘‘ شائع ہوئے۔ 1959ء میں بلوچی اکیڈیمی قائم ہوئی جس کے زیر اہتمام متعدد بلوچی کلاسیکی کتب شائع ہو چکی ہیں۔
ہمعصر بلوچی شعرا میں ظہور شاہ، عطا شاد ، مراد ساحر ، گل خان نصیر ، مومن بزمد ، اسحاق شمیم ، ملک محمد تقی ، صدیق آزاد ، مرعاد ساحر ، گل خان نصیر ، اکبر بارک زئی، ہاشمی شاکر، مراد ساحر ، مراد آوارانی، میر عبدالقیوم ، میر مٹھا خان مری اور ملک پناہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ نئی پود میں امان اللہ گچکی، نعمت اللہ گچکی، عبدالحکیم بلوچ، عبدالغفار ندیم ،اور صورت خان مری نے بلوچی ادب کے ناقدین کو کافی متاثر کیا ہے۔