14 Aug 1947. .....Balochistan States ........Join in Pakistan قیام پاکستان اور بلوچستان کی ریاستوں کی پاکستان میں شمولیت کا معاملہ


 قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی سیاسی و جغرافیائی حیثیت

قیام پاکستان کے وقت موجودہ  بلوچستان برطانیہ کے قوانین کے مطابق 6چھ حصوں میں تقسیم تھا جس کی تفصیلات اسی ویب کے مختلف صفحات پر تفصیل سے دے دی گئی ہے مگر بات کو واضح کرنے کے لیئے ان چھ حصوں کا مختصر جائزہ دوبارہ  پیش کیا جارہا ہے
برطانوی بلوچستان جو کہ  کوئٹہ۔ کوہلو ڈیرہ بگٹی ، پشین، لورالائی ، ژوب، سبی، اور چاغئی کے اضلاع پر مشتمل تھا ۔
ریاستی بلوچستان 
  ریاست قلات،
ریاست خاران،
 ریاست مکران
ریاست لسبیلہ پر مشتمل تھا،
گوادر کی بندر گاہ
ان پانچ حصوں  کے علاوہ گوادر کی بندر گاہ تھی جو مسقط اور اومان کی حکومت کا حصہ تھی
گوادر کی حکمرانی اوراس کا کسی بھی طرح کا کوئی تعلق برطانیہ یا بلوچستان کی کسی ریاست کے ساتھ نہیں تھا۔
یہ چھ  کے چھہ حصے مکمل طور پر علیحدہ تھے ان کا نظام اور ان کے حکمران مکمل طور پر آزاد تھے برطانوی حکومت کے قوانین کے مطابق ریاستی بلوچستان کی ریاستوں کی اور ان  کے حکمرانوں کی حیثیت کسی بھی طرح برصغیر کی دیگر ریاستوں حیدراباد دکن،مالیر کوٹلہ،محمودآباد،بھوپال،میسور،سے کم نہیں تھی یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت برطانیہ نے جب برصغیر کو چھوڑنے اور اس کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے برصغیر کی دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کی مانند بلوچستان کی چارو٘ں ریاستّوں کے حکمرانوں کو  تحریری طور پر اطلاع دی کہ وہ  برصغیر کی حکومت کو چھوڑ رہے ہیں اوراس خطے میں پاکستان قائم ہو رہا ہے اس لیئے اپنی ریاست کے معاملات وہ پاکستانی حکام سے مل کر طے کر لیں 
برطانوی حکومت کے   افسروں نے قلات کے حکمرانوں  سمیت چاروں بلوچ ریاستوں کے حکمرانوں اور سرداروں کے باقائدہ خطوط لکھے جس کا تحریری ثبوت اس وقت بھی موجود ہے 
قلات اور ریاست خاران 
یہ بات واضح رہے کے قلات کے حکمرانوں نے خاران پر قبضہ کرنے کے لیئے کئی بار فوج کشی بھی کی مگر اس فوج کشی کا انجام ریاست قلات کے حق میں برا اور اور ریاست خاران کے حق میں بہتر نکلا آخری بار1939 میں قلات کے خان نے خاران پر فوج کشی کرنے کی کوشش کی خان آف قلات کی افواج کی یہ کوشش  
 انگریز کمشنروں کی وجہ سے جلد ہی اختتام پذیر ہوئی  

قیام پاکستان کے بعد خاران کو اگر چہ قلات کے حکران اپنی زیلی ریاست کے طور پربیان کرتے رہے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے اور اس کا ثبوت بلوچستان کے حوالے سے شائع ہونے والی کتابوں مِں بھی مل جائے گا کہ
قلات کو کبھی بھی  خاران کے نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی اور لسبیلہ کے نوابوں اورمکران کے سرداروں نے اپنے سے بڑا  تسلیم نہیں کیا۔
اس بارے میں ممتاز تاریخ دان اور  محقق  میر عبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران کے صفحہ نمبر 10 اورصفحہ نمبر 11 پر اس طرح سے لکھتے ہیں
میر گل خان نصیر کی کتاب تاریخ بلوچستان جلد اول اور دوئم کے علاوہ تاریخ خوانین بلوچ میں بھی خاران کی سرزمین اور والیان خاران سے متعلق کوئی اہم تذکرہ شامل نہیں بلکہ خطہ خاران کو بلوچوں کو بھی ریاست قلات اور احمد ذئی خاندان کی رعیت شمار کرکے حقائق سے رو گردانی کی گئی ہے حالانکہ والیان خاران اور بلوچان خاران کبھی بھی کسی ریاست کے محکوم نہیں رہے۔ بلکہ اکثر مشکل اور نا مساعد حالات میں ریاست قلات کے خوانی اور امرا اکثر اوقات نوشیروانی خاندان اور خارانی بلوچوں کے ہاں بطور باہوٹ پناہ لے چکے ہیں 
اور اہل خاران نے ہر طرح سے ان کی مدد اور حفاظت کرکے بلوچی رواداری اور مہمان نوازی کی روایات کا پاس رکھا ہے
یہ بات سراسر ذاتیات اور حسد پر مبنی ہے کہ خاران کے امرا ریاست قلات کے مطیع اور محکوم رہے ہیں کیونکہ نوشیروانی کاندان رخشانی احمد ذئی خاندان کے برسراقتدار آنے سے کئی پشت پہلے اس خطہ میں ایک بلوچی آزاد و خود مختار ریاست کے حاکم تھے
     ممتاز تاریخ دان اور  محقق  میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران  کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں کے تاریخ حقیقتا ایک سچی اور غیر متعصبانہ کتاب ہوتی ہے جس میں کسی قوم کے ماضی  کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خاران سے کسی بھی مورخ نے انصاف نہیں کیا
  جس نے بھی اس خطہ پر قلم اٹھایا تو اس نے کہیں نہ کہِں اس سرزمین کے ساتھ زیادتی کی ہے  تاریخ خوانین  بلوچ اور تاریخ بلوچستان ۔ میر گل خان نصیر   نے اپنی کتاب میں خاران کو بلا ثبوت و اثبات ریاست قلات کا ایک حصہ قرار دینے کی سعی کی ہے حالانکہ ریاست قلات کی اصل تاریخ اور ریکارڈ میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ خاران اور خارانی بلوچ کبھی بھی قلات کے باجگزار یا رعیت رہے ہیں تاریخ خوانین جس کو قابل احترام میر احمد یار خان کے نام سے لکھی  گئی ہے لیکن اصل لکھنے والے نے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیئے خاران کو بے جا طور پر قلات کا ایک جزو قرار دیا ہے یا پھر خان صاحب نے از خود دور حاضر کے تقاضوں کے تحت بلوچ اتحاد کے پیش نظر اس امر کو دہرایا ہےممتاز تاریخ دان اور  محقق  میرعبدالقادربلوچ خارانی اپنی کتاب تاریخ خاران  کے صفحہ نمبر 11 میں مزید لکھتے ہیں  اسی طرح میر گل خان نصیر نے بھی  اسی طرح  بے جا تصور پیش کیا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں  ہے  کیونکہ انہوں نے احمد ذئی خاندان کے ساتھ اپنی وفاداری اور نمک حلالی کا ثبوت دیا ہے  جب کہ احمد ذئی خاندان نے ان کے قبیلے زگر مینگل پر بے شمار مہربانیاں کی ہیں اور زگر مینگل ہی واحد قبیلہ ہے جو قلات کے عتاب کا شکار نہیں ہوا ہے ورنہ احمد ذئی خاندان سے بہادر ترین سرداران سراوان و جھالاوان نہ بچ سکے ہیں