Britsh Balochistan برطانوی بلوچستان

برطانوی بلوچستان

انگریز دور میں بلوچستان دو حصوں میں منقسم تھا ایک حصہ تمام برصغیر کے صوبوں کی مانند برطانوی بلوچستان کہلاتا تھا دوسرا ریاستی بلوچستان کہلاتا تھا
 برطانوی بلوچستان کوئٹہ پشین، لورالائی ، ژوب، سبی، اور چاغئی کے اضلاع پر مشتمل تھا ۔
 جبکہ ریاستی بلوچستان  ریاست قلات، ریاست خاران، ریاست مکران، ریاست لسبیلہ پر مشتمل تھا
بلوچستان کے برطانوی کمشنر سر رابرٹ سینڈیمن نے بلوچستان کی  حدود کے
بارے میں اپنے مضمون  بلوچستان ایجنسی کی ایمپائیر
(Notes on the status and Position of the Baluchistan Agency, and its value the defence of Empire) اس طرح سے لکھا ہے
بلوچستان ایجنسی میں خاران۔کیچ مکران، پنجگور، لسبیلہ، قلات،(نوٹ قلات کی حدود میں سینڈیمن نوشکی اور چاغئی کو شامل نہیں کرتا ہے اسی طرح پنجگور، لسبیلہ، کیچ مکران، خاران کو ریاست قلات سے علیحدہ شمار کرتا ہے) اور ژوب کے علاقے شامل ہیں
 


File:IndiaPolitical1893ConstablesHandAtlas.jpg
ن1893میں بنایا گیا برصغیر کا نقشہ جس میں تمام برصغیر کی ریاستوں اور صوبوں اور ان علاقوں کو ظاہر کیا گیا ہے جو برطانوی حکومت کا حصہ تھے یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ نیپال بھوٹان اور سکم کو برطانوی حکومت کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا اس طرح یہ دعوی بے بنیاد ثابت ہوتا ہے کہ ر یاست قلات کا برطانوی ہند میں ایک علیحدہ و خصوصی مقام تھا ۔
     حقیقت یہ تھی کہ  برطانوی  ہند میں صرف ریاست حیدرآباد دکن اور اس کے حکمران  نظام دکن کو خصوصی حیثیت   حاصل تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ریاست دکن کا  علیحدہ کرنسی نوٹ تھا اس کے علاوہ ریاست حیدرآبا د دکن کی جانب سے اپنے ڈاک کے ٹکٹ شائع کیئے جاتے تھے جو آج بھی ڈاک کے شائقین کے پاس مل جائِں گے جب کہ  جو لوگ اس بات کے دعوی دار ہیں کہ  بلوچستان کی ریاست قلات کو کوئی خصوصی حیثیت حاصل تھی تو ان کو چاہِیے کہ وہ  اپنی بات کے حق میں کوئی بھی اس طرح کا ثبوت پیش کریں  ۔
 


File:1940 Bank of Hyderabad 10 Rupees.jpg
ریاست حیدرآباد دکن کا کرنسی نوٹ جو ریاست حیدرآباد کے اسٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کیا گیا تھا  
مولائی شیدائی کی کتاب  تاریخ قلات

اس بات کے حق میں کہ قلات کی ریاست کو کوئی برطانوی ہند میں کوئی علیحدہ حیثیت حاصل نہ تھی  مشہور بلوچ مورخ میر رحیم شیدائی جو  مولائی شیدائی کے نام سے جانے جاتے ہِیں نے بلوچستان اور ریاست قلات سندھ   کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اس کے علاوہ مولائی شیدائی نے اردو انسائکلو پیڈیا بھی مرتب کیا تھا  مولائی شیدائ  اپنی کتاب تاریخ قلات کے صفحہ نمبر14اور15 پر  یوں رقم طراز ہیں کہ برٹش انڈیا  کے تحت تقریبا سات سو چھوٹی  اور بڑی دیسی ریاستیں ہیں ان کو تین درجوں میں منقسم کیا گیا ہے 
  ح1حیدرآباد دکن میسور بڑودہ۔ گوالیار۔ کشمیر۔ پہلے درجے کی ریاستیں ہیں ان کے حکمران براہ راست وائیسرائے ہند سے خط و کتابت کرتے ہیں 
د2دوئیم درجہ کی ریاستوں کی تعداد 170 ہے اور یہ تین ایجنسیوں میں منقسم ہیں 
ا۔۔۔۔۔ سینٹرل انڈین ایجنسی۔۔۔۔ اس میں148 ریاستِں ہیں جن میں اندور۔ بھوپال۔ اور ریوا۔ بڑی ریاستیں ہیں
ب۔۔۔۔۔۔۔۔ راجپوتانہ ایجنسی۔۔۔ جس میں تقریبا بیس بڑی  ریاستیں ہیں جیسے جودھ پور، اودھے پور، جےپور،بیکانیر،بھرتپور، کوٹاہ وغیرہ
ت۔۔۔۔۔۔۔بلوچستان ایجنسی ۔۔۔۔۔ اس میں صرف دو ریاستِں ہیں قلات ۔ لس بیلہ
اس طرح مولائی شیدائی نے اپنی کتاب تاریخ قلات مین وضاحت کے ساتھ لکھ دیا کہ  ریاست قلات کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں تھی اور یہ کہ بلوچستان میں قلات کے علاوہ دوسری ریاست لسبیلہ تھی     
مغربی بنگال اور مدراس سے آنے والے انگریز  تاجروں اور افسروں کے لیئے مغل حکومت کے خاتمے اور اس کے اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد اب یہ ضروری بن چکا تھا کہ وہ ان تمام علاقوں پر قابض ہو جائیں جن پر  دہلی کے مغل حکمرانوں کی حکومت قائم تھی اس مقصد کےلیئے  برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں کی جانب  سے ان تمام علاقوں پنجاب موجودہ صوبہ پختون خواہ، بلوچستان،اور سندھ کی تمام ہی علاقائی ریاستوں میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کی جانب سے باقائدہ وفود بھیجے گئے  جن کے ذریعے دہلی کی زوال پذیر مغل حکومت کے علاقوں یا باجگزار ریاستوں کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کے ساتھ  برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کے رابطے قائم ہوئے اس کے  علاوہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کی جانب سے ان تمام ہی علاقوں کے باقائدہ سروے کیئے گئے 

File:British Indian Empire 1909 Imperial Gazetteer of India.jpg
برطانوی دور کے برصغیر کا نقشہ
 جس میں پیلے رنگ سے بلوچستان کی اور
تمام برصغیر کی  برطاوی دور کی
تمام ریاستوں کو ظاہر کیا گیا ہے

جیسا کہ سر رچرڈ برٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 17ھویں صدی کے آخر میں  سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں اور اہم ترین بندرگاہوں کا سروے کرنے اور جائیزہ لینے کے لیئےبرٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کی جانب سے باقائدہ سروے جہازوں کے ایک بیڑے کے ہمراہ   شاہ بندر ، کراچی، اور بلوچستان کی بندرگاہوں میں پہنچے یہاں سے وہ اپنے بحری بیڑے کے ہمراہ خلیج فارس میں داخل ہوگئے جہاں انہوں نے ایران اور خلیج کی اس زمانے کی بندرگاہوں اور اہم علاقوں کا جائزہ لیا اور اس علاقے کا نقشہ مرتب کیا ۔
 سندھ اور بلوچستان کے علاقے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کے لیئے اس لیئے بھی اہم تھے کےایک جانب توان علاقوں میں اہم ترین بندرگاہیں موجود تھیں دوسری جانب ان علاقوں سے وسط ایشیا کے رابطے بھی قام کیئے جاسکتے تھے دوسرے یہ کہ دہلی اور کلکتے میں بیٹھے ہوئے انگریز حکمرانوں کے لیئے سندھ اوربلوچستان اس لیئے بھی انتہائی اہم تھے کے یہ دونوں علاقے برطانیہ کلکتے اور دہلی کی نسبت برطانیہ سے قریب تھے اسی لیئے  انگریز حکمرانوں نے کراچی کو گیٹ وے آف انڈیا کا نام دیا تھا اس     
      یہ بات واضح رہے کہ 1839 میں انگریز سندھ پر قابض ہوچکے تھے اور ان کی افواج تمام ہی سندھ کو اپنے   کنٹرول میں لے چکی تھی سر چارلس نیپئیر اور دیگر انگریز افسروں نے سندھ کا دارحکومت حیدرآباد کے بجائے کراچی کو چنا تھا اس مقصد کے لیئے پرانے کراچی جس کی ابتدا موجودہ کراچی میں ٹاور کے پر کسٹم ہاوس کے سامنے سے ہوتی تھی اور اختتام ڈینسو ہال  پر ہوجاتا تھا  توسیع کا منصوبہ بنا لیا تھا اس مقصد کی خاطت آئی آئی چندریگر روڈ کی تعمیر کا آغاز ہوچکا تھا موجودہ ایمپریس ماریکیٹ میں انگریز افواج کی چھاونی بنائی گئی تھی موجودہ ایمپریس مارکیٹ کی جگہ انگریز افواج کا پریڈ گراونڈ  تھا اس  کراچی اور سندھ کے حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیئے مندرجہ زیل بلاگر بھی ملاحظہ کیجیے
  pakistan-research.blogspot.com
سندھ کے حوالے سے دیکھیے
sindhsearch.blogspot.com
کراچی کی تاریخ جاننے کے لیئے دیکھیے
karachi-apna.blogspot.com
 افغان  جنگ کے دوران   بلوچستان کے ایک حصہ پر یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا،   1876،  
کی افغان جنگ کے بعد 21فروری1877کو حکومت ہند یا برٹش  گورنمنٹ کے نمائندوں اور قلات اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان معاہدے کے تحت بلوچستان اہجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا  میجر سینڈیمان بلوچستان ایجنسی کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا جس کے عہدے کا نام ایجنٹ  برائے گورنر جنرل ہند رکھا گیا  اس حوالے سے مندرجہ زیل  تقرریاں عمنل میں لائی گئی ۔

اے ڈبلیو ہیوگز        اسسٹنٹ اے جی جی  و پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ
کیپٹن ایس رینالڈ      سیکنڈ  اسسٹنٹ بمقام جیکب آباد
کیپٹن ایج ولی           تھرڈ اسسٹنٹ بمقام قلات
او ٹی ڈیوک میڈیکل آفیسر
نوٹ
اے ڈبلیو ہیوگز  اسسٹنٹ اے جی جی  و پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ نے بلوچستان کے بارے میں بہت سے کتابیں بھی تحریر کی  ہیں جن میں سے ایک  کتا ب کا نام  سر زمین بلوچستان ہے اس کتا ب کا اردو ترجمہ پروفیسر ایم انور رومان صاحب نے کیا ہے اور یہ کتاب بلوچستان کے مشہور پبلشرز نادر ٹریڈرز مستونگ نے شائع کی ہے یہ کتاب بلوچستان کی تاریخ و جغرافیہ کے  بہت سے پہلوو ں کے بارے مِیں روشنی ڈالتی ہے اگر چہ کہ کچھ مقامات پر مصنف نے اس طرح سے حقائق بیان نہِیں کیئے جس طرح اس موضوع کا حق بنتا ہے
 1879، 
 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ  جن کو بعد میں برٹش کو بلوچستان کہا گیا  کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا،
کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کردیا گیا
 برطانوی بلوچستان کے جو اہم علاقے ہیں انکے نام اوپر دیئے جاچکے ہیں ان کی تفصیلات ملاحظہ کیجیے


پشین،

 ضلع ژوب



 پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے علاقوں میں ژوب سب سے زیادہ معروف ہے۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 500000 کے لگ بھگ تھی۔

 تحصیلیں ور ذیلی تحصیلیں

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔
،
 ضلع سبی
ضلع سبی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔برٹش بلوچستان  کے دور میں سبی ضلع میں ڈیرہ بگٹی اور ضلع کوہلو بھی شامل تھے اب ڈیرہ بگٹی علیحدہ ضلع ہے اور کوہلو ضلع جس میں مری قبائیل کی اکثریت ہے علیحدہ ضلع ہے ۔
 سبی ضلع کے مشہور علاقوں میں سبی، ہرنائی اور لھڑی شامل ہیں۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 35000 کے لگ بھگ تھی۔

 تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔
،
 

ضلع لورالائی
ضلع لورالائی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں لورالائی اور دکی شامل ہیں۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 700000 کے لگ بھگ تھی۔

تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔









ضلع کوئٹہ

ضلع کوئٹہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں کوئٹہ اور پنج پائی شامل ہیں۔ 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 850000 کے لگ بھگ تھی۔

 تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔

ضلع چاغی 

ضلع چاغی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے۔ اس کے مشہور علاقوں میں چاغی اور تفتان شامل ہیں۔
 2005ء میں اس کی آبادی تقریباً 250000 کے لگ بھگ تھی۔

 تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں

انتظامی طور پر اس کی تحصیلیں اور ذیلی تحصیلیں درج ذیل ہیں۔

مزید تحقیقات جاری ہیں