History Of Balochistan تاریخ بلوچستان

تاریخ بلوچستان


برصغیر ہندو و پاک کا نقشہ
 ،     سر زمین ایشیا جہاں کئی متضاد ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے وہیں جغرافیائی طور پر بھی گوناگوں خصوصیات کی حامل سر زمین ہے۔یہ وہ خظہ ہے جہاں انسانی تہزیبوں نے سب سے پہلے جنم لیا  تھا ایشیا کا نقشہ اگر دیکھیں تو سر زمین  ایشیا  کو دنیا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے نے دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے  شمال میں ہمالیہ کی بلند ترین چوٹیوں سے جنوب میں عظیم میدانوں، غیر آباد وسیع صحراؤں اور منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اور ناریل کے درختوں سے سجے ساحلوں تک ہر علاقہ اس سرزمین کی رنگا رنگی میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے شمال میں ایک عظیم سلسلہ کوہ ہمالیہ ہے جو برف سے ڈھکی ایک عظیم دیوار کی طرح ایستادہ ہے اور اسے براعظم ایشیا کے دیگر علاقوں سے جدا کرتا ہے۔ ہمالیہ نقشے میں ایک کمان کی طرح نظر آتا ہے۔ دریائے سندھ، گنگا اور برہم پترا کے عظیم زرخیز میدان اور ڈیلٹائی علاقے ان پہاڑی علاقوں کو جزیرہ نما سے الگ کرتے ہیں۔ وسط میں دکن کی عظیم سطح مرتفع ہے جس کے دونوں جانب ساحلوں کے ساتھ ساتھ مشرقی گھاٹ اور مغربی گھاٹ نامی دو پہاڑی سلسلے ہیں۔ایشیا سے ایشیا کے جنوب مشرقی ایشیا  میں داخلے کے لیئے اور ہمالیہ پہاڑ کو عبور کرنے کے لیئے ہمیں  صرف دو ہی راستے ملیں گے ایک برصغیر ہندو پاک کے مغرب میں دریائے سندھ  کے مغرب میں واقع تمام خطے کے ذریعے جو پاکستان کے پانچوں صوبوں  سے گزرتے ہوئے ملیں گے  دوسرا برصغیر کے مشرق میں بدوسری جانب بنگلہ دیش  کے انتہائی شمال مشرق میں واقع راستے  ہیں ان دونوں راستوں  میں  ایران اور سینٹرل ایشیا سے برصغیر میں داخلے کا راستہ انتہائی سہل اور آسان اور محفوظ راستہ ہے  جس پر تمام پاکستان کے چاروں ہی صوبے واقع ہیں یہ ہی وجہ ہے  کہ ہزاروں برس سے وسط ایشیا ایران اور یورپ کے حملہ آورں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں واقع کسی نہ کسی راستے کو برصغیر میں داخلے کا زریعہ بنایا ہے  جبکہ برصغیر سے وسط ایشیا ایران جانے کے لیئے پاکستان کے صوبہ پنجاب یا سندھ سے ہی گزر کر صوبہ پختون خواہ یا  بلوچستان  میں  سے گزرتے ہوئے ایران یا وسط ایشیا کا رخ کیا گیا  ہے جیسا کہ وسط ایشیا سے آریائی حملہ آور  برصغیر میں داخلے کے لیئے پہلے پاکستان مین داخل ہوئے یہاں انہوں نے ایک طویل مدت اپنے آپ کو اس خطے میں قدم جمانے صرف کی جس کے بعد آریا قبائل  دریائے سندھ کو عبور کرکے برصغیر میں داخل ہوئے 
  پاکستان کے اہم ترین صوبہ ہونے کے ناطے بلوچستان بھی ایران اور برصغیر کے راستے بہت سے حملہ آور برصغیر پہنچے اور برصغیر سے باہر گئے جیسا کہ  ،
 سکندر اعظم نے  برصغیر سے  ایران واپسی بھی بلوچستان  کے راستے  اختیار کی
یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کے  تمام ہی علاقوں میں کسی نہ کسی بیرونی قوم کی حکمرانی رہی ہے 
جیسا کہ ڈھائی ہزار سال قبل 
یا تین ہزار سال قبل    ،
 ساتویں صدی سے دسویں صدی تک یہ علاقہ عربوں کے زیر حکومت رہا، سترویں صدی کے  اوائل میں یہاں پر مغل حکومت قائم ہوئی،جسکے زوال کے دوران ایران کے نادر شاہ افشار نے بلوچستان کے ان علاقوں پر قبضہ جما لیا نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد احمد شاہ ابدالی نے اپنی حکومت قائم کی یہ بات واضح رہے کہ احمد شاہ ابدالی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ  ان کی پیدائیش ملتان شہر کی ہے احمد شاہ ابدالی کی حکومت قائم ہونے کے  نتیجے میں بلوچستان  کی تمام ہی ریاستِیں قلات خاران،مکران ،لسبیلہ،اور سبی کے قبائلی علاقہ جات جن میں مری بگٹی اور دیگر قبائل شامل ہیں سب افغانستان کا حصہ بن گئے
 اگر چہ کہ افغانستان کی مانند  بلوچستان مقامی   قبائلی سرداروں کے زیر حکومت رہا  جن میں خوانین قلات  اہم تھے مگر اس کے باوجود یہ سب افغان بادشاہوں کے ماتحت تھے ،
 افغان  جنگ کے دوران یہاں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا،   1876،   1879، اور 1891 کے معاہدوں کے مطابق شمالی علاقہ  جن کو بعد میں برٹش کو بلوچستان کہا گیا  کو برطانوی کنٹرول میں دے دیا گیا،
 کوئٹہ میں ملٹری بیس قائم کردیا گیا
1947 
 میں اس علاقہ کو پاکستان میں شامل کردیا گیا،1970 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ   ملا۔
1976،
  میں حکومت پاکستان  نے سرداری نظام کا خاتمہ کرکے کنٹرول اپنے ہاتھ لیا، جس کے باعث حکومت کے خلاف تحریکوں کا آغاز ہوا،
 اس علاقہ مین چند چھو ٹی بڑی قبا ئلی شورشیں  بھی ہوئیں܂  حکومت اور متحارب گروپوں میں 2004 میں گوریلا جنگ دوبارہ پھوٹ پڑئ، جس کئ وجہ بلوچستان کے مختلف وعلاقوں میں ملٹری کی تنصیبات میں اضافہ اور بڑی تعداد غیر مقامی افراد کی تعداد میں اضافہ، بتایا جاتا ہے
 جب کہ بہت سے بلوچ دانشوروں کے مطابق ان لڑائیوں کی اصل وجہ  یہ ہے کہ بلوچستان میں سڑکوں کے جال بچھ جانے کے نتیجے میں اور جدید مواصلاتی ذرائع کی موجودگی کے باعث عوام کے اندر شعور پیدا ہورہا ہے آج سے بیس سال قبل تک مقید اور کمزور بلوچ کسان اور زمیندار کی پیداوار ان  جدید سڑکوں کے زریعے جہاں کراچی لاہور اور اسلام آباد کی منڈیوں تک پہنچ رہی ہے وہیں  یہ بے بس اور کمزور کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی رسائی اپنے علاقے سے باہر تک ہونے لگی ہے اب ان علاقوں میں تعلیم رائج ہورہی ہے جس کے نتیجے میں  ان کے اندر شعور بھی بیدا ہورہا ہے  بلوچ عوام کی اکثریت جو کل تک ان سرداروں کے آگے مجبور اور بے بس تھے اب ان بے بس اور مجبور عوام کے اندر اپنے حقوق کے حصول کا احساس پیدا ہورہا ہے یہ بات بہت ہی دلچسپ اور اہم ہے کہ 1973 سے لے کر1977 تک بلوچستان میں برپا کی جانے والی لڑائی جسے بغاوت کا نام دیا گیا تھا اس کے بیشتر قائدین اور وہ افراد جنہیں بلوچ آزادی کا مجاہد کہا جاتا ہے وہ سب کے سب اس وقت اپنے سرداروں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں یا اگر وہ اس دنیا میں نہیں رہے ہِں تو ان کا آخری وقت حکومت پاکستان کے بجائے اپنے سرداروں کے خلاف جنگ اور اپنے قبیلے کے اندر سرداری نظام کے کی جنگ میں گزرا ہے 
جیسا کی مری قبیلے کے مشہور گوریلا لیڈر جنرل شیروف عرف میر محمد مری کا معاملہ ہے انہوں نے مری قبیلے کے سردارنواب کیر بخش مری کی خاطر ہر طرح کی قربانی دی میدانوں پہاڑوں میں جلاوطنی کے دنوں کے دوران سخت ترین زندگی گزاریہر طرح کی قربانی دی  قبیلہ صوبہ وطن چھوڑ کر پاکستان سے باہر گئے مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ سردار خیر بخش مری اور دیگر سردار مری عوام کے حقوق ادا نہیں کررہے ہیں تو انہوں نے قبیلے کی روایات کے مطابق جرگے میں اعلان کیا کہ
قبیلے کی زمینیں اور پہاڑ قدیم روایات کے مطابقپورے قبیلے کی ملکیت ہوتا ہے ان سے استفادے کاحق بھی قبائیلی افراد کو ہوتا ہے جنرل شیروف میر محمد مری  کی یہ بات نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھی برداشت نہیں کرپائے اس کے نتیجے میں سردار خیر بخش مری کے اشارے پر پاکستان کے خلاف بگاوت کرنے والے جنرل شیروف میر محمد مری  نے سردار خیر بخش مری اور اور کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کردی جس کے نتیجے میں مری قبائیل میں اس بگاوت کی ابتدا ہوئی جو آج تک جاری ہے اسی طرح مینگل قبیلے میں سردارعطا اللہ مینگل کے اہم ساتھی میر نصیر مینگل اب ان کے خلاف بغاوت کرچکے ہیں  جبکے بگٹی قبیلے کے اندر کلپر اور مسوری قبیلے کےافراد کی نواب اکبر بگٹی کے خلاف بغاوت تو اب تک جاری ہے  اس وقت تمام ہی بلوچ قبائل میں اس طرح کی کیفیات جاری ہیں جاری ہے      
  مقا می قبا ئل کے آپس میں زاتی جھگڑے اور  مسئلے بھی ہیں
2007
  میں اس علاقے میں آنے والے  سائکلون نے شدید تباہی پھیلائ اور کم از کم 800،000 لوگوں کو متاثر کیا
 یہ شہر ڈویژنل اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور اہم تجارتی اور کمیونیکیشن  مر کز ے جو کہ وادئ شال کے شمالی حصے میں سطح سمندر سے  5،500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے܂ کوئٹہ کا علاقہ 1876 میں برطانوی کٹر ول میں تھا܂ سر رابرٹ سنڈیمن نے یہاں پر رزیڈنسی قائم کی ܂ شہر یہاں کے مضبوط ملٹری گیریزن کے ارد گرد قائم ہوا اور اسے 1897 میں میونسپلٹی  میں شامل کیا گیا܂ یہاں آرمی کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج 1907 میں کھلا܂ مئ 1935 میں آنے والے شدید زلزلے نے کوئٹہ  شہر کو تہس نہس کر دیا اور تقریب 20،000 جانوں کا زیاں ہوا܂ اب یہ علاقہ مغربی افغانستان ، مشرقی ایران  اور وسطی ایشیا کے کچھ حصوں کے لیے تجارتی مرکز ہے܂ یہاں کے انڈسٹریز میں کاٹن مل سلفر ریفائنری، تھرمل پاور اسٹیشن پھلوں کے باغات شامل ہیں܂
کوئٹہ  میں جیو فزیکل انسٹیٹیوٹ، جیو لوجکل سروے، سنڈ یمن لائبریری، دو گورنمنٹ کالجز جو کہ پشاور  یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہیں܂
بلوچستان  یونیورسٹی