14 Aug 1947. ....Britsh.Balochistan ........Join in Pakistan قیام پاکستان اور برطانوی بلوچستان کے علاقوں کا پاکستان میں شمولیت کا معاملہ

Map of Pakistan with Baluchistan (CCP) highlighted
14 Aug 1947. ...
. قیام پاکستان اور برطانوی بلوچستان
 کے علاقوں کا پاکستان میں شمولیت کا معاملہ
.انگریز دور میں بلوچستان دو حصوں میں منقسم تھا ایک حصہ تمام برصغیر کے
 صوبوں کی مانند برطانوی بلوچستان کہلاتا تھا دوسرا ریاستی بلوچستان کہلاتا تھا
حکومت برطانیہ کا 1908 کا شائع کردہ بلوچستان کا نقشہ
جس میں برطانوی بلوچستان کو سرخ اور گلابی رنگوں سے 
اور ریاستی بلوچستان کی ریاستوں کو پیلے رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے 
برطانوی بلوچستان کوئٹہ پشین، لورالائی ، ژوب، سبی، اور چاغئی کے اضلاع پر مشتمل تھا ۔ 
  ریاستی بلوچستان  ریاست قلات، ریاست خاران، ریاست مکران، ریاست لسبیلہ پر مشتمل تھا۔
برطانوی بلوچستان ..........کے بارے میں جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ  کوئٹہ پشین، لورالائی ، ژوب، سبی کے بلوچ علاقوں جہاں بگٹی اور مری قبائیل کے مراکز ہیں ، اور چاغئی کے اضلاع پر مشتمل تھا  اس لیئے قیام پاکستان کے وقت جہاں برطانوِ ی قوانین کے مطابق ریاستوں کے معاملات ان ریاستوں کے حکمرانوں کی رائے کی بنیاد پر کیئے گئے اسی طرح وہ علاقے جہاں برطانوی حکومت کی براہ راست حکمرانی تھی ان علاقوں کے معاملات  اور کی حیثیت کا تعین صرف اور صرف ان علاقوں کے عوام اور ان کے نمائندوں کی آرا کے مطابق کیئے گئے۔۔۔
 شاہی جرگہ 
شاہی جرگہ اور بلوچستان
 
انگریز دور میں بلوچستان کے قبائلی نظام کو چلانے کے لیئے انگریز حکمرانوں نے بلوچستان کے قبائلی نظام کے مطابق تمام قبائل کا جرگہ بنایا ہوا تھا جسے شاہی جرگہ کہا جاتا تھا شاہی جرگے کا صدر ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل آف برٹش انڈیا ہوتا تھا اس کا پرسنل اسسٹنٹ انتہائی قابل بیورو کریٹ ہوتا تھا قیام پاکستان اور اس سے قبل شاہی جرگے کے صدر کا پرسنل سیکرٹری لالہ دیوان رائے بہادر تھا جو خطاب یافتہ تھا اس نے اس وقت کسٹم قوانین پر مرتب کی جانے والی کتاب کا دیباچہ لکھا تھا جو اس کی قابلیت کو ظاہر کرتی تھی
شاہی جرگے کے انعقاد کے موقع پر صدر کے دائیں ہاتھ پر قلات کے بلوچ سردار بیٹھتے تھے سب سے پہلے سید اس کے بعد ساراوان کا چیف اس کے بعد چیف آف جھالاوان اور پھر بلوچ سردار بیٹھتے تھے پشتونوں کی جانب سے سب سے پہلے نواب محمد خان جوگیزئی اس کے بعد سردار بہادر خان ذرغون خان جوگیزئی پھر دوسرے سردار بیٹھتے تھے اس طرح یہ ایک دائیرہ سا بن جاتا تھا نواب زادہ جہانگیر خان جوگیزئی اپنی کتاب پاکستان ،بلوچستان اور نائب صدر شاہی جرگہ کے صفحے نمبر 120پر شاہی جرگے کی اس کیفیت کے بعد لکھتے ہیں کہ مجال ہے جو یہاں شور شرابا ہو جرگے کے اہل کار بڑے قابل ہوتے تھے بیانات لیتے اور بڑے سردار سے دستخط کروائے جاتے اس طرح سے شاہی جرگے کی جب رائے حاصل کرلی جاتی تو وہ ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل کو بھیج دی جاتی 
ہر شاہی جرگہ اصل میں لیجیسلیٹو (قانون ساز) اسمبلی تھی ہر قوم کا سردار اپنے علاقے کا زمہ دار ہوتا تھا اس کام کے لیئے انہیں لیویز سروس بھی دی دی گئی 

تھی

نواب زادہ جہانگیر خان جوگیزئی  کتاب پاکستان ،بلوچستان اور نائب صدرشاہی  
 چونکہ برطانوی بلوچستان میں کوئٹہ شہر آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا شہر تھا پھر اس کی تمام بلوچستان میں مرکزی حیثیت تھی اس لیئے صرف اور صرف برطانوی بلوچستان کے معاملات کو طے کرنے کے لیئے کوئٹہ کو چنا گیا 
 یہ بات بلکل ہی غلط اور بے بنیاد  جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا ہے کہ بلوچستان کے معاملات کو کوئٹہ کی میونسپلٹی کے فیصلے کی بنیاد پر طے کیا گیا  بلوچستان کی ریاستون کی پاکستان میں شمولیت کے معاملے کو ان  چاروں ریاستوں کے حکمرانوں نے اپنے مشیروں اور اپنے عوام کی رائے کے مطابق  طے کیا 
برطانوی بلوچستان کے عوام کی رائے کس طرح سے لی گئی؟ اور بلوچستان کے عوام  نے کیا رائے دی؟
 اس پر مختلف کتابوں میں بڑی ہی تفصیل سے معلومات ملیں گی مگر بلوچستان کے کاکڑ قبیلے کے سربراہ  نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنی کتاب
 پاکستان اور بلوچستان اور نائب شاہی جرگہ میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ دی     نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی  کے والد نواب محمد خان جوگیزئی نے  تحریک پاکستان میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نےاپنی کتاب  بلوچستان کے ایک مخصوص گروہ کے بارے مِیں اور اس کے کردار کے بارے میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کتاب کے صفحہ نمبر 14 پر
   بلوچستان میں تحریک پاکستان اور کانگریس کی سازش کے عنوان سے باب کی ابتدا کی ہےاس حوالے سے صفھہ نمبر 15 پر تحریر کرتے ہیں کہ انہی دنوں بلوچستان میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا ۔جس کی صدارت قاضی عیسی کے حصے مِں آئی۔آگے لکھتے ہیں کہ عبدالصمد اچکزئی بلوچستان کانگریس کے کرتا دھرتا تھے انہوں نے اس صورتحال سے پورا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ تیار کیا۔ ایک زیرک سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے بساط سیاست کے آہستہ آہست مہرے آگے بڑھانا شروع کر دئے۔ کچھ اس شدو مد  سے کوشش کی اور مجھ  پر اس قدر ذور ڈالا کہ میں  میر جعفر خان جمالی کی درخواست کو رد نہ کرسکا اور میرے پاس ان کی حامی بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ ادھر پاکستان کے ہمنوا دوستوں نے میرے لیئے راہ ہموار کرنا شروع کردی ادھر کانگریس کی طرف سے دولت کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ یہ بڑا مشکل وقت تھا۔ پاکستان دوست کارکن سر جوڑ کر بیٹھے سب نے نسیم حجازی کی اس تجویز کو بے حد پسند کای کہ روز انتخاب سے قبل سرداروں کا ایک وفد اے جی جی  سے ملے اور ان کے سامنے میری حمایت کا اعلان کردے چناچہ اس تجویز کو بروئے کار لانے کے لیئے دوڑ دھوپ شروع کردی رات دن ایک کرکے میری حمایت میں 40 سرداروں کے دستخط حاصل ہو گئے 65  رائے دہندگان مِں سے چالیس موثر اکثریت رکھتے تھے ۔ انتخاب سے کئی روز  پیشتر انتکاب کا فیصلہ  ہو گیا  عبدالصمد اچکزئی کے ہاتھ صرف تیرہ ووٹ لگے۔
دوسری چال
عبداصمد اچکزئی شاہی جرگے کے ہاتھوں شکست فاش کھانے کے بعد حالات سے مایوس نہیں ہوئے ۔
مئی 1947 کی بات ہے خان عبدالصمد اچکزئی خان عبدالخالق خان کاکڑ زئی، محمد ہاشم غلزئی/ ارباب عبدالقادر کانسی، اور مرزا فیض اللہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ میری طرف سے کابینہ ، قائد اعظم، نہرو اور وائسرائے ہند کو ایک تار جانا چاہِئے کہ ہم سے پوچھے بغیر بلوچستان کو ہندوستان یا پاکستان کسی مملکت میں شامل نہیں کرنا چاہِیے۔ تار کا مسودہ تیار ہوا ہی تھا کہ جہانگیر شاہ بھِی دفتر سے واپس  پہنچے۔ اس وقت عبدالصمد اچکزئی نے جہانگیر شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا 
جہانگیر میں نواب صاحب کے پاس آیا ہوں۔ اور میں نے نواب صاحب کو یہ باور کروایا ہے کہ میں کانگریس کا ادنا ممبر بھی نہیں ہوں صرف انگریز کا دشمن ہوں  اور اب جبکہ وہ جارہا ہے میں خوش ہوں  پاکستان بنے یا ہندوستان رہے مجھے کوئی اعتراض نہیں البتہ اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کوئی بھی حکومت بنے بلوچستان کا کیا ہوگا؟بلوچستان آبادی کے لحاظ سے چھوٹا اور رقبے کے لحاظ سے بڑا ہے کوئی بھی ھکومت اس وسیع علاقے کو ترقی دینے کے لیٗے اتنا خرچ برداشت نہیں کرسکتی ہے لہٰذا بلوچستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہمیں منتشر کردیا جاٗے گا۔ کچھ حصہ سندھ میں کچھ حصہ پنجاب میں ، اور کچھ سرحد میں شامل کردیا جائے گا ہم ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے تو ہمارا مستقبل بھی ختم ہوجاٗئے گا ۔ اب وقت ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں سے بات کریں ۔ اگر قائد اعظم کانگریس کے مقابلے میں چار آنے بھی دیں تو مجھے پاکستان منظور ہوگا ۔ جہانگر شاہ بولے ایک وفد قائد آعظم کے پاس بھیجا جائے۔
عبدالصمد اچکزئی نے ان کی بات کاٹ کر کہا نہیں فی الحال تو یہ تار نواب صاھب کی طرف سے جارہا ہے ۔ ہمیں ہماری مرضی کے خلاف کسی مملکت میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ہم ایک علیحدہ قوم ہیں اور ہمارے معاملات اور علاقوں سے مختلف ہیں ۔ اس سے بیشتر کہ جہانگر شاہ کچھ اور کہیں آدمی تار لے کر تار گھر چلا گیا ۔ عبدالصمد اچکزئی نے تجویز پیش کی کہ پنڈت نہرو کے پاس وہ خود جائیں گے اور جناح صاحب کے پاس کسی اور کو بھیج دیا جائے عبدالصمد اچکزئی نے مجھ( نواب محمد شاہ جوگیزئی  ) سے یہ بھی دریافت کیا کہ اگر ہمارا مطالبہ مان لیا گیا اور بلوچستان سے یہ پوچھنے کا یہ فیصلہ ہوا کہ بلوچستان کا نمائندہ پاکستان کی مجلس دستور ساز میں بیٹھے یا ہندوستان کی ‘ تو یہ کس سے پوچھا جائے؟
شاہی جرگے سے یا عوام سے ۔
 ابھی میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا کہ وہ پھر بولے جب نمائندہ شاہی جرگے نے منتخب کیا ہے تو اس بات کا فیصلہ
بھی شاہی جرگے سے ہی کرانا چاہیے ۔
 میں نے کہا ٹھیک ہے
۔3جون کو جب بلوچستان کو حق خود ارادیت دیا گیا اور استصواب شاہی جرگے پر چھوڑ دیا گیا تو سارے بلوچستان میں جو شخص بے حد مسرور تھا وہ عبدالصمد اچکزئی تھا۔
عبدالصمد اچکزئی ایک پارٹی تیار کرکے دہلی روانہ ہوگٗے اور وہاں سے کانگریس سے یہ اقرار لے کر واپس آئے کہ ہندوستان فی الفور 18کروڑ روپے اور سالانہ ساڑھے چار کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیئے تیار ہے‘۔’’ اگر مجھے یہ شرط منظور ہے تو میں جس پر اعتبار ہوگا گاندھی جی‘ پنڈت نہرو، یا سردار پٹیل آجائنگے اور معاہدہ کرلیں گے۔ ایک طرف تو یہ حالات تھے
اسی اثنا میں کانگریس پورے زور شور سے کام کررہی تھی۔ سرداروں کو اپنے ڈھپ پر لانے کے لیئے نت نئے حربے اختیار کیئے جارہے تھے ۔ کبھی کہا جاتا کہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا صوبہ ہے لیکن آمدنی کم ہوگی اخراجات زیادہ صرف ہندوستان ہی بلوچستان کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے۔ کسی سے کہا جاتا کہ ایک دفعہ بلوچستان ہندوستان میں شامل کا فیصلہ کرلے بنیے کی کیا مجال کہ وہ بلوچستان پر حکومت کرسکے۔

 لا محالہ اسے بلوچستان کو آزاد کرتے ہی بن پڑے گی۔۔۔یا۔۔۔
پٹھان سرداروں کو یہ کہہ کر ورغلایا جاتا کہ خان قلات کی قائدآعظم سے دوستی ہے بلوچستان پاکستان میں شامل ہوا تو خان قلات ہی بلوچستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے اور وہ پٹھانوں کو تہس نہس کر دیں گے
دوسری طرف بلوچوں کو پٹھانوں کے خلاف بھڑکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا اور پٹھانوں کو بلوچوں کے خلاف غرض جو ملتا اس سے اس کے ڈھب کی بات کی جاتی
۔

 ادھر عبدالصمد اچکزئی نے میرا( نواب محمد شاہ جوگیزئی  ) الگ ناک میں دم کررکھا تھا جب موقع ملتا دو چار پٹھان سرداروں کو ساتھ لے کر چلا آتا اور مجحے ان کی بات سننا پڑتی ایک ایسا ہی موقع تھا کہ عبدالصمد اچکزئی چند پٹھان سرداروں کو ساتھ لے کر آن پہنچا اور کہنے لگا کہ پنڈتت جی اٹھارہ کروڑ روپیہ فوری طور پر دینے کے لیئے تیار ہیں اور سال بسال بلوچستان کی ترقی پر کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے لیئے آمادہ ۔ اگر آپ چاہیں تو ان کے ہاتھ کی تحریر لادوں اور پھر ٹیپ کا بند لگایا کہ پٹھا ن قبائل اپنی قسمت کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں دے چکے ہیں ۔ امید ہے کہ آپ انہیں دھوکہ نہ دیں گے ۔ 
جہانگر شاہ اس وقت موجود تھے اور نہایت خاموشی سے ان کی بات سن رہے تھے آخری بات پر وہ خود پر قابو نہ پاسکے اور نہایت درشت لہجے میں کہا’’ اگر تم ورغلانے کیلئے پھر آئے تو نتائج کے ہم نہیں تم زمہ دار ہوگے جہانگر خان کے درشت لہجہ اختیار کرنے کے بعد پھر عبدالصمد اچکزئی نے اس موضوع پر کبھی مجھ سے بات نہیں کی لیکن دوسرے محازوں پر اپنی کوششیں تیز کردیں
استصواب کا وقت قریب تر آتا جارہا تھا اور بلوچستان میں نت نٗی سازشیں جنم لے رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ غالبا 6جون کی بات ہے ایک بلوچ سردار میرے (نواب محمد خان جوگیزئی جو نواب جہانگیر خان جوگیزئی کے والد اور کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار)پاس آئے اور کہنے لگے کہ خان قلات کے ہاں بہت بڑی دعوت ہے اور بلوچ سردار جمع ہیں اور آزاد قلات اور آزاد بلوچستان کی باتیں ہورہی ہیں میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو اطلاع دے دوں ‘ آپ پٹھانستان کیوں نہیں بناتے ۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر بڑی تشویش ناک تھی ۔ میں نے جعفر خان جمالی کو بلانے کے لیئے آدمی بھیجا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی خان قلات کی دعوت میں شرکت کے لیئے گئے ہوئے ہیں ۔ میرا دل(نواب محمد خان جوگیزئی جو نواب جہانگیر خان جوگیزئی کے والد اور کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار ) وسوسوں کی آماجگاہ بن گیا۔ شام کے قریب نسیم حجازی آگئے وہ خو د اس واقعہ سے پریشان تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آخر یہ مصیبت کیا ہے یا تو کل تک پاکستان بن رہا تھا یا آج کوئی بلوچ سلطنت بنا رہا ہے کوئی آزاد پٹھانستان کی داغ بیل کا مشورہ دے رہا ہے خدارا میر جعفر خان جمالی کو بلاو تاکہ ان فتنوں کا سدباب کیا جاسکے ورنہ وہ دن دور نہیں جب کانگریس ہر سردار کو تاج پہنائے گی۔
رات کو گیارہ بجے میر جعفر خان جمالی آئے ۔ تھوڑی دیر میں مسعود صاحب بھی آگئے ایک بجے تک باتیں ہوتی رہیں ۔آخر طے پایا میں(نواب محمد خان جوگیزئی جو نواب جہانگیر خان جوگیزئی کے والد اور کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار ) اور میر جعفر خان جمالی پاکستان کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کریں۔ نسیم حجازی نے ایک مشترکہ بیان تیار کیا لیکن اسی اثنا میں نصیر آباد اور نوشکی کے چند سردار آگئے اور وہ میر جعفر خان جمالی کے ساتھ بیان کے متعلق الجھتے رہے ۔ تین بجے مسعود صاحب نے مجھے بیان دیا جس پر میں نے(نواب محمد خان جوگیزئی جو نواب جہانگیر خان جوگیزئی کے والد اور کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار ) اور میر جعفر خان جمالی نے دستخط کیئے دوسرے روز میر جعفر خان جمالی مجلس قانون ساز سندھ کے اجلاس میں شرکت کے لیئے کراچی روانہ ہو گئے‘ جس میں پاکستان کے بارے میں قرار داد پیش ہوناے والی تھی اور یہاں سازشوں کے محاز کھل گئے ۔ میر جعفر خان جمالی کو گئے ہوئے دو روز ہوئے ہوں گے کہ یہ اطلاع ملی بلوچ سردار اکبر خان بگٹی کے مکان میں جمع ہیں اور آزاد بلوچ کی کھچڑی پک رہی ہے ۔ یہ خبر بگٹی قبیلے کے سردار جمال خان بگٹی لائے۔ سردار جمال خان بگٹی پاکستان کے ہمنوا تھے لیکن ان کے تعلقات اکبر خان کے ساتھ سخت خراب تھے ۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ چند دبنگ سردار وں کو لے کر اکبر خان کے گھر چلے جاٗؤ۔ پاکستان کی حمایت مین باتیں کرنے والے اس اجتماع میں موجود ہونگے تو سرداروں کو بہکانا آسان کام نہیں ہوگا

 29
جون 1947  کو میر جعفر خان جمالی مجلس قانون ساز سندھ کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپس آگئے تھے اور پاکستان کے لیئے کام میں زیادہ جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا ۔ یون کانگریس کی تھیلیوں کے منہ ایک عرصے سے کھلے ہوئے تھے لیکن اصل رقم استصواب سے صرف ایک روز پہلے یعنی 2جولائی کو پہنچنے والی تھی کہ اطلاع ملی کہ 29جون کواے جی وائسراے کا اعلان پڑھ کر سناٗئیں گے اور پھر سرداروں کو اعلان پر غور کرنے کی مہلت دی جائے گی اور تایخ مقررہ پر رائے شماری ہو جائیگی ۔ اس بار پھر قبل از وقت اعلان کے مجرب نسخے کو آزمانے کا فیصلہ کیا گیا ۔پاکستان دشمن قوتیں اس مرتبہ مطمئین تھیں ۔ ان کی نگاہیں 3جولائی پر لگی ہوئی تھیں اور تیاریاں 2جولائی کی شب پر ملتوی کی جاچکی تھیں طے یہ پایا کہ جونہی اس وقت کے اے جی جی مسٹر جیفرے وائسرائے کا اعلان ختم کریں میں(نواب محمد خان جوگیزئی جو نواب جہانگیر خان جوگیزئی کے والد اور کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار) کھڑا ہوکر کے مجرب نسخے سرداروں کی طرف سے یہ اعلان کردوں کہ ہم لوگ اس اعلان کو پہلے ہی پڑھ چکے ہیں اور اس پر غور و خوص بھی کرچکے ہیں ۔ اب ہمیں اس پر غور و خوص کی مزید مہلت کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد پاکستان کی حمایت کا
اعلان کردیا جائے
ج29جون  1947کا تاریخ ساز دن
آخر کار 29جون 1947کا تاریخ ساز دن بھی آن پہنچا ۔ تمام سردار ٹاون ہال میں موجود تھے اور باہر عوام کا اژدھام ٹھیک دس بجے مسٹر جیفرے ہال میں داخل ہوئے اور لارڈ ماونٹ بیٹن کا اعلان پڑھنا شروع کیا ۔ ابھی وہ اعلان ختم نہ کرپائے تھے کہ میں (نواب محمد خان جوگیزئی  کاکڑ قبیلے کے نواب اور سردار) اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا
’’ہم یہ اعلان پہلے بھی پڑھ چکے ہیں ‘اس کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیئے ہمیں مزید مہلت کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ شاہی جرگے کے سردار فیصلہ کرچکے ہیں کہ بلوچستان کا نمائندہ پاکستان کی مجلس دستور ساز میں بیٹھے گا جو سردار اس فیصلے کے خلاف ہیں وہ ایک طرف ہو جائیں۔ فورا سردار دودا خان اٹھے انہوں نے بھی پاکستان کے حق میں تقریر کی ، اب ہر طرف سے تائید اور تائید کا شور اٹھ کھڑا ہوا

 صرف چار سردار درمیان میں کھڑے رہ گئے جب شور کم ہوا تو انہوں نے دریافت کیا۔
 کہ کیا یہ بلوچستان اور قلات کا سوال ہے؟
 مسٹر جیفرے نے نہایت شستہ اردو میں جواب دیا نہیں یہ ہندوستان اور پاکستان کا معاملہ ہے ۔ اس سے قلات کا کوئی تعلق نہیں ہے
‘‘۔ چاروں سردار بولے ’’ اگر اس معاملے کا قلات سے کوئی تعلق نہیں تو ہم بھی اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں دیتے ہیں ۔
 اس پر مسٹر جیفرے نے کہا کہ’’ بہتر ہے ہم وائسرائے کو تار کے زریعہ مطلع کردینگے کہ شاہی جرگے نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔ اخبارات کے نمائیندوں کو ہال میں بیٹھنے کی اجازت تھی ۔ چناچے ہفت روزہ تنظیم کے ایڈیٹر کی حیثیت سے نسیم حجازی ہال میں موجود تھے وہ فورا باہر نکلے اور لوگوں کے زبردست ہجوم کو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کی خوشخبری سنا ئی ۔ لوگ حیران تھے کہ استصواب تو 3جولائی کو ہونے والا تھا یہ 29جو کو اس کا فیصلہ کیے ہوگیا؟َ
اقتباس بلوچستان اور انگریز ہندو کی سازش کی کہانی نواب محمد خان جوگیزئی کی زبانی

ایسا نہِیں ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک ہی کتاب میں لکھا گیا ہے یا کسی پوشیدہ جگہ پر یہ واقعہ پیش آیا تھا ؟  اس واقعے کے بارے مِیں بلوچستان کے عوام اور سیاستدان سب ہی جانتے ہیں مگر کیا کہیے کہ ایک مخصوص لابی اپنے مقاصد کی خاطر اس ساری صورتحال کو بگاڑ کر عوام الناس کے سامنے پیش کررہی ہے جس کے اثرات غلط ہی برآمد ہو رہے ہیں
 جاری ہے



  یونین آف بلوچستان کا نام خود  ساختہ طور پر سابق خا ن آف قلات احمد یار   خان نے اپنی کتاب   مختصر تاریخ قوم بلوچ و خوانین بلوچ میں  پہلی بار پرچار کیا تھا یہ کتاب  10دسمبر 1972کو خان آف قلات کی رہائش گاہ سے شائع کی گئی   
  خان آف     
قلات احمد یار خان خود ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت

 میں بلوچستان کے چار سال تک گورنر رہے خان آف قلات

 احمد یار خان  کے دور میں بلوچستان میں مری اور مینگل

 قبائل کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تھا۔اس سے قبل اس نام سے کوئی


 واقف ہی نہ تھا۔ اگر واقف تھا تو اس کے بارے میں بتایا 

جائے یا ثبوت یش کیا جائَے

قیام پاکستان سے قبل برطانوی بلوچستان

 اگر ان چار ریاستوں کو کہا جاتا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو برٹش انڈیا

 دور کے

 نقشوں میں یہ بات ملتی بلکہ بلوچستان ایک کمشنری


 صوبہ تھا جس کا کنٹرول براہ راست گورنر جنرل آف انڈیا


کے ہاتھ میں تھا جو بلوچستان کے لیئےچیف کمشنر نامزد 

کرتا تھا

 برطانوی  بلوچستان اس وقت بنیادی طور پر 6 حصوں میں 

تقسیم تھا ایک


 برٹش بلوچستان جس کا آغاز سبی سے ہوتا تھا اس میں


 ڈیرہ بگٹی مری کوہلو کوئٹہ ،ذوب پشین ،چمن قلعہ سیف


 اللہ و دیگر علاقے شامل تھے اس کا نظام شاہی جرگے کے


 ہاتھ میں تھا جس کا سربراہ کمشنرتمام قبائل  بگٹی مری

 مینگل کاکڑ اچکزئی جمالی مگسی، کے سردار یا  سربراہ

 اس کے اراکین تھے اس کا مرکز کوئٹہ میں  تھایہ ایک طرح


 سے بلوچستان کے اس علاقے کا ہاوس آف لارڈذ تھا



Baluchistan (CCP)
CapitalQuetta
Area140,010 km²
LanguagesPashtoBaluchi
Established 15 August 1947
Abolished14 October 1955


دوسرا ریاست قلات


 تیسرا حصہ  ریاست لسبیلہ تھی جس کے سربراہ جام

غلام قادر  مرحوم  اہم ترین محب وطن پاکستانی رہنما تھے

 اور یہ جام غلام قادر ہی تھے جنہوں نے نواب جعفر خان 


جمالی نواب جہانگیر خان جوگیزئی اوردیگر  رہنمائوں کے

 ساتھ مل کر بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کو


 یقینی بنایا

چوتھا حصہ ریاست خاران

تھی جس کے خلاف 1939میں خان آف قلات میر احمد یار

 خان نے فوج کشی کی جس میں خاران کے نواب اور عوام



 کی بھر پور مزاحمت کے باعث وہ ناکام رہے


 پانچویں حصہ مکران اور چاغئی کے

 علاقے علیحدہ علیحدہ نوابوں اور سرداروں کے ماتحت تھے

 جبکہ گوادر کا علاقہ سلطنت مسقط کا حصہ تھا جس کو

 میں اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان ن کی

 حکومت نے مسقط و اومان کی
حکومت سے 1957میں خرید لیا اس طرح قیام پاکستان سے

 قبل برطانوی بلوچستان چھ حصوں میں تقسیم تھا