Balochistan Name and geographical boundaries بلوچستان نام اور جغرافیائی حدود


بلوچستان نام

بلوچستان انگریزوں نے اس علاقے کانام رکھا تھا جو انگریزوں نے ریاست قلات سے سبی اور افغانستان سے چمن ، پشین ،ژوب اپنی تحویل میں لے لیا تھا اپنی سہولت کے لئے اورانتظامی اعتبار سے اس علاقے کا ایک نام بلوچستان رکھا گیا تھا جبکہ دیگر علاقوں کو ان کے ناموں مثلا قلات، لسبیلہ،یا خاران ، ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا
اس سے قبل  موجودہ صوبہ بلوچستان مختلف حصوں میں تقسیم تھا جنہیں الگ یا علیحدہ ناموں سے پکارا جاتا تھا جن کی نوعیت اس طرح کی تھی
موجودہ مکران یونانی دور میں پرانا نام  گدروسیا
خاران پرانا نام سیستان جسٹس خدا بخش مری اپنی کتاب ۔بلوچستان تاریخ کے آئینے میں کے صفحہ نمبر118 اور 119پر اس خطے کے بارے مِن رائے دیتے ہیں  اس خطے اور بلوچستان کے کچھ دیگر خطوں کو سیستان کا نام دیا گیا ہے
صفحہ نمبر 119 پر لکھتے ہِن کہ سیستان خراسان سے  رقبہ کے لحاض سے بہت بڑا ہے اس کے سرحدیں دوسرے بہت سے علاقوں سے ملتی ہیں ۔ یہاں کے باشندے اہل  قندھار' ترک اور دوسری قوموں کے باشندوں سے لڑتے رہا کرتے تھے ۔ یہ علاقہ بلخ اور سندھ کی سرحد کے درمیاں واقع ہے حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں یہ علاقہ کافی اہم سمجھا جاتا تھا ۔ اس کی سرحدِیں  ناہموار تھیں اور اس کی +بادی دوسرے بہت سے علاقوں سے زیادہ تھی۔ اس علاقے میں ایک بہت بڑی فوج بھی موجود تھی۔
قلات پرانا نام  قیقان  دور قدیم میں اس کا مرکز قضدار یا موجودہ خضدار تھا
سبی پرانا نام
ژوب پرانا نام

 جی لی اسٹرینج نے اپنی کتاب جغرافیہ خلافت مشرقی
میں اس سوال کا جواب دیا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ بلوچستان کے ایک حصے کو مسلم تاریخ میں طوران یا توران  کے نام سے پکارا جاتا تھا جبکے مکران کا نام  قدیم  یونانی تاریخ میں گدروسیا ملتا ہے ۔
مشہور  بلوچ مورخ میر رحیم داد شاہوانی  (مولائی شیدائی) اپنی کتاب تاریخ قلات کے صفحہ نمبر71 پر لکھتے ہیں کہ
       نادر شاہ افشار نے جو ایران میں برسر اقتدار آیا۔ اٹھارویں صدی مِں  افغانوں کو شکست دے  کر قندھار پر حملہ آور ہوا۔ افغان اور بلوچ علاقوں کو ممیز  (شناخت )کرنے کی غرض سے افغان علاقے کا نام افغانستان اور بلوچ علاقے کا نام بلوچستان رکھا۔۔۔ 
یہ ہی بات اے ڈبلیو ہیوگز  اسسٹنٹ اے جی جی  و پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ نے اپنی کتا ب تاریخ بلوچستان میں تحریر کی ہے  اے ڈبلیو ہیوگز  اسسٹنٹ اے جی جی  و پولیٹیکل ایجنٹ کوئٹہ نے بلوچستان کے بارے میں بہت سے کتابیں بھی تحریر کی  ہیں بلوچستان کے بارے میں بہت سے کتابیں بھی تحریر کی  ہیں جن کا مختلف افراد نے  اردو ترجمہ کیا ہے 
  بعد میں نئے حکمران یعنی انگریزوں نے اس علاقے کا نام اپنی سہولت کے لئے بلوچستان رکھا تھا   جو انگریزوں نے ریاست قلات سے سبی اور افغانستان سے چمن ، پشین ،ژوب اپنی تحویل میں لے  کر قائم کیا تھا  اپنی سہولت کے لئے اورانتظامی اعتبار سے اس علاقے کا ایک نام بلوچستان رکھا گیا تھا
جبکہ دیگر علاقوں کو ان کے ناموں مثلا قلات کی ریاست ، لسبیلہ کی ریاست ،یا خاران کی ریاست ، ہی کے نام سے پکارا جاتا تھا

جی پی اسٹرینج  اپنی کتاب جغرافیہ خلافت مشرقی میں صفحہ نمبر484 پرلکھتے ہیں  سجستان کی حدود وہی تھیں جو آج کل بلوچستان کے صحرا کے ہیں   زمانہ وسطیٰ میں یہ مکران کا حصہ سمجھا جاتا تھا
آگے صفحہ نمبر 499 پر لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی سرحد کے قریب عرب جغرافیہ دانوں نے   دو علاقوں کا حال لکھا ہے یعنی طوران یا توران جس کا دارلحکومت قصدار( موجود ہ خضدار ) تھا
اور بد ھ جو طوران کے شمال میں تھا   
   نوٹ  اس وقت بدھ زیر بحث نہیں ہے ہم اس طوران کو زیر بحث لاتے ہیں برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ ہی طوران یا توران کو اہمیت حاصل رہی ہے مگر یہ طوران یا توران کہاں ہے ؟آج کل کے تاریخ دان اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں؟

           بلوچستان اور اس خطے کی جغرافیائی حدودبلوچستان  کا بیشتر حصہ غیر مستقل دریاوں اور چٹیل میدانوں ، ناہموار وادیوں اور برہنہ پہاڑوں کے سلسلے سے مرتب ہے پاکستانی بلوچستان  کا کل رقبہ 30 ہزار705 مربع کلو میٹر ہے یہ خطہ مندرجہ زیل  جغرافیائی  حصوں میں منقسم ہے ، ژوب  بلوچستان کے شمال مشرقی حصے کے آخر میں واقع  ہے کوئٹہ، پشین،سبی،لورالائ، اور کیچ گنداوہ بلوچستان کے شمال میں واقع ہیں چاغئی پاکستانی بلوچستان کے شمال مشرق میں واقع ہے، جبکہ خاران مغربی حصہ میں  پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع ہے سراوان، جھلاوان،قلات  بلوچستان کے مرکزی حصہ میں شمال سے جنوب کی جانب یعنی کوئٹہ  شہر سے ریاست لسبیلہ کی سرحد تک واقع ہے 
جبکہ مکران  صوبہ بلوچستان کے پورے جنوب مغربی حصے پر مشتل ہے  ریاست لسبیلہ ایک باریک پٹی کی صورت میں بحیرہ عرب کے ساحل پر مکران کے حصہ کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا ہے
پہاڑ
بلوچستان میں سب سے زیادہ پہاڑ مرکزی اور شمال مشرقی حصوں  میں واقع ہیں بلوچستان کے تقریبا درمیان سے کوہ سلیمان کے پہاڑوں کا چھوٹا سا سلسلہ گزرتا ہے  یہ پہاڑ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلے تک چلا رہتا ہے کو سلیمان کے متوازی ہی تقریبا پانسو کلو میٹر تک پھیلا ہوا ٹوبہ کاکڑی کا سلسہ ہے اس کی زیادہ سے زیادہ اونچائی تقریبا سطح سمندر سے 2704 میٹر ہے خواجہ عمران کے جنوب مغرب میں سرلیا کے پہاڑ واقع ہیں جو شودہ کی وادی کو شوارک کی وادی سے جدا کرتا ہے توبہ اور خواجہ عمران کے پہاڑوں کے دروں میں  سر سبز چراہ گاہیں ہیں جن میں خانہ بدوش گرمیوں میں اپنے موہیشیوں کے گلے چراتے ہیں
 افغانستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرحد کی حدود میں مشرق سے مغرب کی جانب کوہ  سلطان چاغئی کے پہاڑوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے جو تین ممالک یعنی افغانستان ، پاکستان، اور ایران کے سرحدوں کے اتصال کے نقطہ یعنی کوہ ملک سیاہ کی چوٹی  جو سطح سمندر سے 1248 میٹر کی اونچائی پر ختم ہوتا ہے
کوئٹہ شہر کے جنوب میں کوہ ہر بوہی  وسطی کا سلسلہ واقع ہے جو چھوٹے پہاڑوں کے ساھ مل کر بلوچستان کے تمام مرکز میں واقع براہوی کے نام سے تشکیل دیتا ہے  براہوی کو ہ سلسلہ کےی لمبائی 355 کلو میٹر اور چوڑائی 112 کلو میٹر ہے جکبہ سب سے زیادہ اونچائی 2000 میتر تک پہنچتی ہے

مکران
  مکران کی نوعیت اس طرح کی ہے۔ پاکستان مِں واقع مکران یا کیچ مکران جسے مغربی مکرابن بھی کہاجاتا ہے کے پہاڑوں کے تین سلسلے مشرق سے مغرب اور شمال مغرب کی جانب پھیلے ہوئے ہیں اور مکران کو خاران کے صحرا سے جدا  کرتا ہے
دریا
بلوچستان دریاوں کے لحاظ سے زیادہ امیر نہیں ہے مغرب میں مکران سے لے کر مشرق تک کوئی ایسا دریا نہِن ہے جسے بڑا دریا کہا جاسکےیا وہ سارا سال جاری رہ سکے
ہنگول  بلوچستان کا سب سے بڑا دریا ہے اس کی لمبائی 573 کلو میٹر ہے اور یہ سارا سال بھی نہیں بہتا ہے البتہ برسات کے زمانے میں یہ منہ زور دریا  بن جاتا ہے  اس کے علاوہ دریائے ژوب، دریائے پشین ، دریائے لواڑہ بھی اس خطے کے دریا ہیں مگر یہ سارا سال نہیں بہتے ہیں