Kalat State ریاست قلات

Map of Pakistan with Kalat highlighted
ریاست قلات کی حدود کا نقشہ
 پاکستان  کے نقشے میں
                       ریاست قلات

 قیام 1540عیسوی

قلات کی ریاست کے اس وقت ہندو حکمران تھے جنہیں ہندو سیوائی حکمران کہا جاتا تھامیر قمبر نے ہندو سیوائی حکمران کو جنگ میں شکست دینے کے بعد اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لیا یوں قلات پر قمبرانی حکومت کا قیام عمل میں آیا قمبرانی حکومت زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ سکی  قمبرانی خاندان کے آخری حکمران میر حسن کی لاولدی کی حالت میں فوت ہو جانے کے نتیجے میں قلات کی حکمرانی کا  سوال اٹھا کہ اب کس کو قلات کا حکمران بنایا جائے ؟  جس کے نتیجے میں قبائلی سرداروں نے آپس کے مشوروں کے تحت  میر احمد زئی خاندان کے سربراہ  میر احمد زئی کو قلات کا حکمران  چنا


ریاست قلات کا پہلا حکمران میر احمد خان احمد زئی

قبائیلی سرداروں نے جرگے کے فیصلے کے تحت 1666 میں میر احمد خان کو والی قلات مقرر کیا جس کے نتیجے میں قلات کی ریاست پر احمد زئی خاندان کے اقتدار کی ابتدا ہوئی ۔ قلات کی ریاست کے پہلے حکمران کے طور پرمیر احمد زئی بہت ہی کامیاب حکمران ثابت ہوئے اگر چے کہ اس وقت ریاست قلات کی حدود قلات اور سوراب کے علاقوں پر مشتمل تھی مستونگ پر مغلوں کا قبضہ تھا باغبانہ اور خضدار نیز درہ مولہ کے متصلہ علاقے پر جدگال قابض تھے اور شال کوٹ ( یا کوئٹہ) پر افغانوں کا قبضہ تھا سندھ پر کلہوڑہ خاندان حکمران تھا جب کہ یہ تمام علاقہ دہلی کے مغل حکمران اور نگ زیب کے ما تحت یا باجگزار تھے
س29سال کی حکمرانی کے بعد
  میر احمد خان کے انتقا ل کے بعد میر محراب خان کو قلات کا حکمران بنا دیا گیا
جیسا کے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کا صوبہ بلوچستان قیام پاکستان سے قبل جو کہ مشرقی بلوچستان یا انڈین بلوچستان کہلاتا تھا دو حصوں پر مشتمل تھا اس کا ایک حصہ ریاستی بلوچستان کہلاتا تھا دوسرا حصہ برٹش بلوچستان کے نام سے جانا جاتا تھا 
ریاستی بلوچستان ، قلات ، خاران ، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا، ان میں سب سے بڑی ریاست قلات کی تھی 
 قلات پر  احمد زئی قبیلے نے لشکر کشی کرکے میرواڑیوں کے قبضے سے قلات چھین لیا ( اس علاقے کومشہور تاریخ دان مقدسی نے توران کا نام دیا ہے جو بعد میں قلات کے نام سے مشہور ہوا) اور یوں قلات پر بلوچوں کی حکمرانی قائم ہوگئی جو قیام پاکستان تک قائم رہی۔
قلات
 انتظامی اعتبار سے قلات کے مشہور حکمران میر نصیرخان  نوری نے  قلات کو دوحصوں ساراوان اور جھالاوان کے نام سے تقسیم کررکھاتھا یہ دراصل انتظامی اعتبار سے دو صوبے تھے جن کی سربراہی ان دونوں صوبوں کے بڑے قبیلوں کے سرداروں کے حوالے کردی گئی تھی جو بعد میں موروثی سربراہی مین تبدیل ہو گئی 

Flag of Kalat
ریاست قلات کا جھنڈہ  انگریز حکومت کے دور میں
قلات کے حکمران میر نصیرخان  نوری نے بلوچ فوج اور سرداروں کے ہمراہ احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ مرہٹوں کے خلاف مشہور پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا اس لڑائی میں دیگر بلوچ قبائیل کے ساتھ بگٹی مری لغاری اور مزاری قبائل نے بھی حصہ لیا مرہٹوں کی شکست کے بعد مغلوب مرہٹوں کی بہت بڑی تعداد کو قیدی بنا کر بلوچستان میں لایا گیا تھا ان میں سے کچھ بگٹی قبیلے کے قیدی بنے جس کے نتیجے میں یہ مرہٹے ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں آباد کیئے گئے جن کے اولاد آج بھی بگٹی قبیلے کا حصہ ہیں اور یہ ہندو بگٹی کہلاتے ہیں ۔٫

موجودہ ضلع قلات کی حدود
 بلوچستان کے نقشے میں
  ریاست قلات کی اس تقسیم کی بنیاد پر قلات کے علاقوں میں قبائل کو بھی تقسیم کیا گیا تھا  اسی بنیاد پر اپنی فوج کی بنیاد بھی رکھی تھی ان کے دربار 
میں اسی ترتیب سے جھالاوان اور ساراون کے سرداروں کے نشستیں مقرر کی گئیں تھیں قیام پاکستان سے قبل جب قلات کے آخری حکمران میر احمد یار خان ( سابق گورنر بلوچستان) نے جدیدیت کے تحت  کی ایوان بالا اور ایوان زیریں  تشکیل دی تو اس ترتیب سے  قبائل کے سرداروں کو  ایوان بالا اور ایوان کا   رکن بھی بنایا گیا تھا مگر اس تقسیم کی قیام پاکستان کے بعدکچھ بھی اہمیت نہ رہی بعض بلوچ محقیقین اس پارلیمنٹ کو نام نہاد کہتے ہیں کیونکہ اس پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا ثبوت سوائے قیام پاکستان کے وقت پارلیمنٹ  کے نام پر کی جانے والےتقاریر کے سوا کسی بھی قسم کا کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا ہے ۔
 قیام پاکستان کے بعد ریاست لسبیلہ اور ریاست خاران بھی بلوچستان کا حصہ بن گئیں اگر چہ اب نہ تو قلات کی ریاست باقی رہ گئی ہے اورنہ ہی پرانا نظام باقی ہے مگر اس کے باؤجود اس کی روائت باقی ہے اسی لئے اب بھی چیف آف جھالاو ن اور چیف آف ساراوان کا خطاب کچھ سردار استعمال کرتے ہیں  جن کے بزرگ چیف آف جھالاوان یا چیف آف ساراوان تھے  ان کی قانون کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے مگر بلوچ روایات میں ان کا مقام ہے۔۔
 اس وقت چیف آف جھالاوا ن نواب ثناء اللہ زہری ہیں
اورچیف آف ساراوان نو اب اسلم رئیسانی موجودہ وزیر اعلیِ بلوچستان ہیں
ساراوان
 
ساراوان میں، مندرجہ زیل قبائل آباد ہیں
رئیسانی۔ میر رئیسانی کی اولاد بعد میں رئیسانی مشہور ہوئی
شہوانی۔ قدیم زمانے میں سراوان کی فوجی تنظیم اک کماندار اعلی ۔قبیلہ شہوانی کا سردار ہوا کرتا تھا مگر خان آف قلات سے ناچاکی کی بنا پر یہ منصب خان آف قلات نے قبیلہ رئیسانی کے سردار کے سپرد کر دیا  اس قبیلے کی انیس شاخیں ہیں
بنگلزئی
محمد شہی
لہڑی
سرپرہ
لانگو
کرد
دہوار قبیلہ۔۔۔۔ دہوار کو دہ وار بھی کہتے ہیں اس قبیلہ کا پیشہ کاشتکاری ہے  انگریز محقق ڈیمز انہیں ایرانی النسل بیان کرتا ہے مگر ہیوز بلر کہتا ہے کہ یہ تاجک نسل کے ہیں دہوار قبیلہ دو مقامات پر مقیم ہیں  قلات اور مستونگ اسی اعتبار سے ان کی تقسیم بھی کی جاتی ہے کہ قلات کے دہوار اور مستونگ کے دہوار 
خراسانی
جوہانی

 جھالاوان
جھالاوان مِن براہوی زبان بولنے والے مندرجہ زیل قبائل آباد ہین جن کے نام اس طرح سے ہیں 
زہری
مینگل، یہ اس وقت اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں اس وقت مینگل دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک جس کے سربراہ سردار عطائاللہ مینگل ہیں عملا ان کے بیٹے اختر مینگل(سابق وزیر اعلی بلوچستان) قیاد ت کرتے ہیں دوسرے وفاقی وزیر مملکت میر نصیر مینگل کی قیادت میں ہیں ان کے دو بیٹے میر عطاء الرحمان مینگل۔ اور میر شفیق الرحمان مینگل اس وقت مینگل سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں

محمد حسنی
بیزنجو۔
ساجدی
میروانی
کمبرانی
قلندرانی
گرگناڑی
سمالانی
رودینی
ریکی زئی
ساسولی
لغاڑی
نوٹ یہ مضمون ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اس پر مزید تحقیقات جاری ہیں   
قلات کے حکمران .

  خان آف قلات
TenureKhan of Kalat
]
1666 - 1667
1695 - 1696
1697 - 1713
1713 - 1714
1714- 1734
1734- 1749
1749 - 1817
Mir Muhammad Nasir Khan I
میر نصیر خان نوری عظیم ترین بلوچ سردار تھے جب دہلی میں حضرت شاہ ولی  اللہ نے مسلمانوں کو مرہٹوں سے بچانے کے لیئے عالم اسلام سے مدد کی اپیل کی تو احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ میر نصیر خان نوری تمام بلوچ قبیلوں اور ان کے سرداروں کے ساتھ پانی پت کے میدان میں موجود تھے احمد شاہ ابدالی نے میر نصیر خان نوری کے ساتھ مل کر مرہٹوں کو تاریخی شکست دی جس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مرہٹوں کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو گئےمیر نصیر خان نوری کے حالات زندگی کے مطالعے کے نیجے میںیہ بات سامنے اتی ہے کہ وہ عظیم ترین مسلمان رہنما تھے اگر ان کو ورثے میں کوئی بڑی ریاست یا سلطنت ملتی تو یقینا اس کو چار چاند لگا دیتے    
1817 - 1831
1831 - 13 November 1839
1839 - 1840
1840 - 1857
1857 - March 1863
Mir Khudadad Khan (1st time)
during his period of rule,
there were seven major and many minor rebellion took place.
March 1863 - May 1864
Sherdil Khan (usurped throne)
May 1864 - 15 August 1893
Mir Khudadad Khan (2nd time)
میر خداد خان کو اگر چہ کے قلات کی روایات اور بلوچ اصولوں کے مطابق سرداروں کے جرگے کے تحت منتخب کیا گیا تھا مگران کے بعض اقدامات ایسے تھے جن کے نتیجے میں قلات کے سرداروں کے اندر میر خداد خان کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی اس میں سے ایک کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے خان قلات میر خداد خان نے مینگل سردار نورالدین کو قلات طلب کیا وہ اپنے قبیلے کے سرداروں اور معززین کے ہمراہ قلات پہنچا قلات پہنچنے پر زالحجہ کی نو تاریخ کویوم عرفہ کی صبح خان نے اپنے دروغہ کو حکم دیا کہ مینگل سردار اور اس کے تمام ساتھیوں کو قتل کردیا جائے اس حکم کی تعمیل ہو رہی تھی اور اس وقت میر خدادادخان دسترخوان پر ناشتہ کررہا تھا پیٹ پوجا کے ساتھ ساتھ اس کی فطری تشنگی کو بھی لقمہ اجل ہوتے ہوئے دشمنوں کی کراہنے کی صداوں سے تسکین حاصل ہورہی تھی اور قلعہ میری کی بالائی منزل سے اس کی آنکھیں بھی اس نظارے سے لطف اندوز ہورہی تھیں   اس وقت سندھ کا کمشنر سر ولیم میری ویدر تھا جس کے نام پر کراچی کا مشہور میری ویدر ٹاور قائم ہے
میر خداداد خان کے اس طرح کے دیگر اقدامات کے نتیجے میں قلات کے بلوچ سرداروں کے اندر میر خداداد خان کے خلاف بغاوت پھیل گئی اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیئے اب ایک ہی صورت باقی رہ گئی تھی کے میر خداداد خان کو ہٹا کر ان کی جگہ کوئی دوسرا قلات کی ریاست کا حکمران مقرر کیا جائے  میر خداداد خان کو اس فیصلے کی اطلاع دی گئی اور ان کی جگہ ان کے بیٹے میر محمود خان کو قلات کا حکمران مقرر کیا گیا جب کے میر خداداد خان کو انگریز کمشنر نے اپنے فوجی دستے کے ہمراہ پشین بھیج دیا جہاں میر خداداد خان نے اپنی زندگی کے بقیہ سولا برس گزارے اس دوران ان کے ہمراہ ان چھوٹے بھائی میر اعظم خان بھی پشین ہی رہے میر اعظم خان کے ساتھ ان کے بیٹے میر احمد یارخان  قلات کے آخری حکمراں تھے رہے اوریہیں پر میر احمد یار خان نے تربیت حاصل کی    
10 November 1893 - 3

 November 1931
Mahmud Khan II
3 November

 1931 - 10 September 1933
Mohammad Azam Jan Khan
10 September 1933 - 14
Ahmad Yar Khan



میر احمد یار خان نے قیام پاکستان کے بعد ریاست قلات کو پاکستان کا حصہ بنا دیا زوالفقار علی بھٹو کے دور میں میر احمد یار خان بلوچستان کے گورنر بھی رہے 
میر احمد یار خان خان آف قلات نے بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست قلات کے سربراہ کی حیثیت سے28 
  مارچ1948کو کراچی میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کردیئے قلات کے حکمران کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ بلوچستان کے سب سے آخری ریاست تھی   یوں قیام پاکستان کا یہ عمل ایک طرح سے مکمل ہوا مگر تقریبا دس سال کے بعد پاکستان کی حوود میں گوادر کی بندرگاہ شامل ہوئی جس کی تفصیلات گوادر کے باب میں مل جائیں گی 
نوٹ یہ مضمون ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اس پر مزید تحقیقات جاری ہیں